رمضان میں اعتکاف کرنا سنت ہے یا فرض ؟ اور آج کل جو یہ بات چل رہی ہے کہ مرد حضرات بھی اپنے گھر میں اعتکاف کر سکتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
واضح رہے کہ ہر محلے کی مسجد میں رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا اہلِ محلہ کے ذمے سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے،( اگر تمام محلہ والوں میں سے کوئی بھی اس سنت کو ادا نہ کرے تو سب اس سنت کے چھوڑنے والے اور گناہ گار ہوں گے،) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے پردہ فرماگئے۔
مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ سے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسلسل اعتکاف کرنا ثابت ہے، البتہ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے پورے مہینے اعتکاف کیا، اور اس کی وجہ شبِ قدر کی تلاش بتائی، اس کے علاوہ عمومی معمول آخری عشرے کا اعتکاف کرنے کا تھا، تاہم سنہ 8 ہجری میں چوں کہ فتح مکہ مکرمہ کی وجہ سے آپ ﷺ نے اعتکاف نہیں کیا، لہٰذا وفات سے پہلے سال آپ ﷺ نے رمضان المبارک میں بیس دن اعتکاف فرمایا۔
مردوں کے لیے ایسی مساجد میں اعتکاف کرنا شرط ہے جہاں پانچ وقت کی نمازیں جماعت کے ساتھ ہوتی ہوں، ایسی مساجد کے علاوہ مصلوں اور گھروں میں اعتکاف کرنے کی شرعاً اجازت نہیں، اگر مرد گھر میں یا مصلی میں اعتکاف کرے گا تو اس کا اعتکاف درست نہیں ہوگا۔البتہ خواتین اپنے گھر میں جگہ مقرر کرکے اعتکاف کرسکتی ہیں ۔ مردوں کے لیےمسلم ممالک میں ہر قسم کے اعتکاف کے لیے مسجد شرعی کا ہونا ضروری ہے۔
قرآنِ کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے :
"{وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ}." [البقره، 2: 187]
فتاوی شامی میں ہے :
"قال في البحر:وحاصله أن شرط کونه مسجداً أن یکون سفله وعلوه مسجداً لینقطع حق العبد عنه."
(فتاوی شامی: ۶/۵۴۷، ط: زکریا دیوبند)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 442):
"وبالتعليق ذكره ابن الكمال (وسنة مؤكدة في العشر الأخير من رمضان) أي سنة كفاية كما في البرهان وغيره لاقترانها بعدم الإنكار على من لم يفعله من الصحابة (مستحب في غيره من الأزمنة) هو بمعنى غير المؤكدة."
الفتاوى الهندية (1 / 211):
"وينقسم إلى واجب، وهو المنذور تنجيزا أو تعليقا، وإلى سنة مؤكدة، وهو في العشر الأخير من رمضان، وإلى مستحب، وهو ما سواهما، هكذا في فتح القدير."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100886
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن