بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسے زیورات جس میں آدھاسونا ہواور آدھا کھوٹ ہو اس میں زکات کا حکم


سوال

 جب کسی زیور میں سونا کھوٹ سے زیادہ ہو تو للاکثر حکم الکل کے اعتبار سے سب کو سونا شمار کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ: 

1)اگر میرے پا س ایسے زیورات ہوں جن میں اکثر حصہ کھوٹ ہو تو اس میں زکات کا کیا حکم ہوگا؟

2) اگر زیورات میں50 فی صد کھوٹ ہو اور50فی صد سونا ہو تو پھر کس کے حکم میں ہے؟ آیا اس کے حکم میں ہے، جب کہ سونا کھوٹ سے زیادہ ہو یا اس کے حکم میں ہے جب کہ کھوٹ زیادہ ہے؟

جواب

1:صورت مسئولہ میں ایسے زیورات کا حکم سامان تجارت کا ہے ،یعنی اگر خریدتے وقت اس  سے تجارت کرنے کی نیت کی تھی ،تو اس میں ڈھائی فیصد کے اعتبار سے زکات ادا کرنا لازم ہو گا ،البتہ اگر یہ ایسے زیورات ہیں کہ سونا اس سے الگ کرنا ممکن ہو ،اور الگ کرنے کے بعد وہ سونا نصاب ( یعنی  ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کی بقدر) پہنچتا ہو،تو اس پر زکات لازم ہے ،ورنہ نہیں ۔

2:اس صورت میں  احتیاطا ً یہ ایسے زیورات سونے کے حکم میں  ہوں گے ،اور   ان پر زکات لازم ہو گی ،کیوں عبادات میں احتیاط کرنا اؤلی وافضل ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وغالب الفضة والذهب فضة وذهب وما غلب غشه) منهما (يقوم) كالعروض، ويشترط فيه النية إلا إذا كان يخلص منه ما يبلغ نصاباً أو أقل.

(واختلف في) الغش (المساوي والمختار لزومها احتياطا خانية ولذا لا تباع إلا وزنا).....قوله: والمختار لزومها) أي الزكاة: أي ولو من غير نية التجارة، ۔۔۔ـ وظاهر الدرر اختيار الأول تبعا للخانية والخلاصة. قال العلامة نوح وهو اختياري؛ لأن الاحتياط في العبادة واجب كما صرحوا به في كثير من المسائل، منها ما إذا استوى الدم والبزاق ينقض الوضوء احتياطا اهـ

تأمل (قوله: ولذا) أي للاحتياط. وفي نسخة: وكذا بالكاف، وبها عبر في البحر والمنح، وقوله: لا تباع إلا وزنا: أي للتحرز عن الربا. اهـ."

 (کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال،2/ 300،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505100220

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں