بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسے ہینڈ سینیٹائزر جن میں الکحل ملا ہوا ہو ان کو استعمال کرنے کا حکم


سوال

 مساجد میں آج کل ہینڈ سینیٹائزرز رکھے ہیں، یہ لائف بوائے کمپنی کے ہیں اور ان پرالکوحل بھی  ساتھ میں لکھا ہوا ہے،کیا ان سینیٹائزرز  سے ہاتھ دھونا اور اس کے بعد وضو کرنا جائز ہے؟ یہ بوتلیں لوگ ثواب کی نیت سے مسجد میں رکھ دیتے ہیں اور نمازی بھی مالِ مفت دل بے رحم کے مصداق بڑی تسلی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ 

جواب

واضح رہے کہ موجودہ دور میں الکحل دو طرح کا استعمال ہوتا ہے، ایک وہ جو انگور ،کھجور وغیرہ سے کشید کیا جاتا ہے اور دوسرا وہ جو دیگر پھلوں ،اناج یا کیمیکل وغیرہ سے بنایا جاتا ہے،دونوں قسم کے الکحل کا حکم الگ الگ ہے۔

جو الکحل انگور یا کھجور کی شراب سے حاصل کی جائےچوں کہ وہ شراب ( خمر ) کا جز ء ہوتا ہے  ،پس جس طرح شراب حرام اور نجس ہے اسی طرح وہ الکحل   نہ صرف حرام بلکہ نجس بھی ہے اور دوسری چیزوں میں ڈالنے سے وہ چیزیں بھی ناپاک ہوجاتی ہیں اور اس کا پینا حرام ہے چاہے نشہ آور ہو یا نہ ہو، اور جن چیزوں میں اس قسم کی الکحل شامل ہو ان کا استعمال جائز نہیں ہے۔

الکحل کی دوسری قسم جو دیگر پھلوں اور کیمیکلز وغیرہ سے تیار کی جاتی ہے ،اس کو نشہ آور ہونے کی حد تک پینا تو حرام ہے ،البتہ یہ نجس نہیں ہے ،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قران کریم میں خمر کی تعیین کرکے اسے حرام اور رجس ( نجس ) قرار دیا ہے، پس جو الکحل دیگر پھلوں اور کیمیکلز وغیرہ سے بنائی جائے گی وہ نشہ آور ہونے کی صورت میں تو حرام ہوگی ،البتہ معمولی مقدار جو نشہ آور نہ ہو وہ ناپاک  شمارنہیں ہو گی بلکہ پاک کہلائے گی ۔

اور موجودہ دور میں جو الکحل  ادویات ،پرفیومز اور ہینڈ سینیٹائزر ( ہاتھ کے جراثیم مارنے کے لیے ) میں استعمال ہوتی ہے وہ اس دوسری قسم کی ہوتی ہے جوپاک ہے   اور یہ الکحل پینے کے قابل بھی نہیں ہوتی،بلکہ ضرر رساں ہوتی ہے۔

لہذا مساجد میں جوہینڈ سینیٹائزر رکھے  ہیں ان کا استعمال کرنا درست ہے ،البتہ اگر  تحقیق سے ثابت ہوجائے کہ اس میں پہلی قسم یعنی انگور یا کھجور کی شراب سے کشید کی ہوئی الکحل شامل ہے تو اس صورت میں اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسة عند الإمام ابي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخري، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل الي حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل علي مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالي، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخري ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبةً مع المواد الأخري، ولايحكم بنجاستها أخذًا بقول أبي حنيفة رحمه الله.

و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع."

(كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة، 608/3، ط: مكتبة دار العلوم)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں