بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1445ھ 20 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسی جائے نماز پر بیٹھنے کا حکم جس پر کعبہ وغیرہ کا نقش بنا ہوا ہو


سوال

اگر مصلّی پر کعبہ یا گنبد کی تصویر بنی ہو تو اس جگہ بیٹھنا کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے  متبر ک مقامات کے جو نقوش بنائے  جاتے ہیں وہ بھی متبر ک ہوتے ہیں ، لہذا ان نقوش کا بھی ادب واحترام کرنا چائیے ، مصلّی (جائے نماز)  پر جو کعبہ یا گنبذ  وغیرہ کے نقوش بنائے جاتے ہیں ، ان کے  اوپر  بیٹھنے سے بے ادبی سی ہوتی ہے ، اور عرفاً اس کو خلاف ادب شمار کیا جاتا ہے ، لہذا ایسے مصلّی (جائے نماز )  پر  کعبہ وغیرہ والی جگہ پر بیٹھناخلاف ادب ہونے کی وجہ سے نامناسب  ہے ۔

قرآن مجید میں ہے :

﴿ ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾(سورۃ الحج 32)

ترجمہ :یہ بات بھی ہوچکی اور قربانی کے جانور کے متعلق اور سن لو کہ جو شخص دین خداوندی کے ان (مذکورہ ) یادگاروں کا پورا لحاظ رکھے گا تو ان کا یہ لحاظ رکھنا خدا تعالیٰ سے دل کے ساتھ ڈرنے سے ہوتا ہے ۔(از بیان القرآن )

عمدۃ القاری شرح البخاری میں ہے :

"وفي (المنتهى) لأبي المعالي: استأدب الرجل بمعنى تأدب، والجمع أدباء، وعن أبي زيد: الأدب إسم يقع على كل رياضة محمودة يتخرج بها الإنسان في فضيلة من الفضائل، وقيل: الأدب استعمال ما يحمد قولا وفعلا، وقيل: الأخذ بمكارم الأخلاق، وقيل: الوقوف مع المستحسنات، وقيل: هو تعظيم من فوقك والرفق بمن دونك فافهم"

(كتاب الأدب ، ج: 22 ص: 80 / 81 ط: دار الفکر)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے :

"وكذا" ‌صح ‌فرض ‌ونفل "‌فوقها وإن لم يتخذ" مصليهما "سترة" لما ذكرنا "لكنه مكروه" له الصلاة فوقها "لإساءة الأدب باستعلائه عليها" وترك تعظيمها "

(‌‌باب الصلاۃ ، باب الصلاة في الكعبة ص: 417 ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی مفتی محمود  میں ہے :

’’ جائے نمازوں پر جو متبرک نقوش بنائے جاتے ہیں ، اگر وہ کھڑے ہونے کی جگہ پر ہوں تب تو ان پر نماز نہ پڑھی جائے کیوں کہ ایسے متبرک نقوش کے پاؤں تلے آنے میں ان کی بے ادبی سی ہوتی ہے ، اور اگر سجدہ لگانے کی جگہ پر یہ نقوش ہوں جیسے عموماً ہوتا ہے تو اس پر نماز پڑھنے میں کوئی بے ادبی نہیں ہے ،کیوں کہ  ایسے  نقش پر سجدہ لگانا عرفا خلاف ادب شمار نہیں ہوتا  اس لیے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ، اور  ایسے مصلی پر نماز  پڑھنی جائز ہے۔‘‘

(کتاب الصلاۃ ، باب فی احکام اللباس ج:2 ص:  768ط: جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں