ہم گزشتہ کچھ سالوں سے ایک حجرے میں تراویح میں ختمِ قرآن کا اہتمام کرتے تھے، ابھی کچھ عرصہ پہلے اس سے شادی کی تقریبات منعقد ہوئیں، جس میں گانے بجائے گئے، پوچھنا یہ ہے کہ کیا اب اس حجرے میں تراویح میں ختمِ قرآن کا اہتمام کیا جاسکتا ہے؟ شرعاً اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ حجرے میں نماز قائم کرنے سے کوئی مانع نہیں پایا جا رہا، لہٰذا اس میں حسبِ سابق تراویح میں ختمِ قرآن کا اہتمام کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اس حجرے کے مالکان نے اگر اس میں خود سے ایسی تقریبات منعقد کی تھیں جوکہ غیر شرعی امور پر مشتمل تھیں یا کسی دوسرے شخص نے کی تھیں مگر اس میں حجرے کے مالکان کی رضامندی شامل تھی تو انہیں اپنے اس عمل پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے، اور آئندہ کے لیے ایسے امور سے اجتناب کرنا چاہیے۔
"عن ابن عمر، " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن يصلى في سبعة مواطن: في المزبلة، والمجزرة، والمقبرة، وقارعة الطريق، وفي الحمام، وفي معاطن الإبل، وفوق ظهر بيت الله. "
(ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی کراہیۃ مایصلی الیہ وفیہ،ج2،ص177،ط:مصطفی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101647
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن