بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسی کمپنی میں حساب کتاب کا کام کرنا جو اپنی پراڈکٹ پر تصاویر لگاتی ہو


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل دو مسئلوں کے بارے میں:

(1)میں ایک ایسی کمپنی میں کام کرتا ہوں، جس میں تقریباً 700 افراد کام کرتے ہیں، میں اس کمپنی میں ڈیٹا بیس (Data Base) کا کام کرتا ہوں، یعنی پوری کمپنی کا حساب کتاب کرتا ہوں کہ کون سا مشتری زیادہ مال لیتا ہے، کون سا کم مال لیتا ہے، کتنا مال فروخت ہوا اور کتنا باقی ہے وغیرہ، یہ سارا حساب کتاب میرے ذمہ ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ اس کمپنی میں بعض افراد گاہک کے لیے کارٹن وغیرہ پر جاندار اور ذی روح کی تصاویر بناتے ہیں، جس میں بعض دفعہ عورتوں کی تصاویر  اور جانوروں کی تصاویر بھی ہوتی ہیں، اور کتابوں میں جو تصویریں ہوتی ہیں وہ بھی بناتے ہیں، اور میرے منع کرنے کے باوجود بھی وہ لوگ بناتے ہیں۔

تو آیا اس بنانے میں گناہ ہے یا نہیں؟  اور میں اس گناہ میں شامل ہوں یا نہیں؟ نیز کمپنی کی آمدن ایک ساتھ جمع ہوتی ہے اور اسی سے سارے ملازمین کو تنخواہیں دی جاتی ہیں، تو کیا میرا اس کمپنی میں کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟

(2) اسی طرح میں ایک اور دوا بنانے والی کمپنی بطورِ مینجر کام کرتا ہوں، اس کمپنی میں میرا کام ہے دوائی فروخت کرنا اور اُس کا حساب کتاب کرنا۔ اب مسئلہ یہ درپیش ہے کہ اس کمپنی میں دوائی کے ڈبوں پر جاندار کی تصاویر (جیسے چھوٹے بچوں کی، عورتوں کی اور کارٹونوں وغیرہ کی) بناتے ہیں، میرے منع کرنے کے باوجود بھی بناتے ہیں، تو کیا ان تصاویر کے بنانے میں گناہ ہے یا نہیں؟ اگر گناہ ہے تو کیا میں اس گناہ میں شامل ہوں یا نہیں؟ اور اس کمپنی میں  میرے لیے کام کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے؟

جواب

(1) و(2):واضح رہے کہ بلا  کسی شدید عذر کےجاندار اشیاء  کی تصاویر  بنانا شرعاً ناجائز اورحرام  ہے، خواہ تصویر کسی بھی چیز پر، کسی بھی ذریعہ سے بنائی جاۓ، احادیثِ مبارکہ میں تصاویر بنانے کے متعلق بڑی  وعیدیں بیان کی گئی ہیں اور اس عمل کو اللہ تعالی کے ساتھ صفتِ  تخلیق میں مشابہت اختیار کرنے کے مترادف  قرار دیا گیا ہے۔ نیز ایسی  ملازمت کرنا جس میں  جاندار اشیاء کی تصاویر بناکر ان کے عوض  تنخواہ وصول کی جاتی ہو، گناه كے كام ميں تعاون  ہونے کی بناء پر ناجائز  ہے۔

لہٰذا مذکورہ دونوں کمپنیوں میں  مختلف اشیاء پر مختلف جاندار چیزوں کی تصویر بنانے کا عمل شرعاً ناجائز اور قابلِ ترک عمل ہے، کمپنی کی انتظامیہ، جس کی اجازت سے یہ کام ہوتا ہے اور وہ افراد جو تصاویر بناتے ہیں، وہ سب  اس گناہ میں شریک ہیں، اُنہیں چاہیے کہ  اس عمل سے فوری توبہ کرکے آئندہ کے لیے اجتناب کریں۔

باقی چوں کہ  اس عمل میں آپ کا کسی قسم کا کوئی تعاون اور رضامندی  شامل نہیں ہے، اور مذکورہ دونوں کمپنیوں میں آپ کا کام حساب کتاب کرنا ہے اور اسی کے عوض  آپ کو تنخواہ ملتی ہے،اس لیے آپ پر  اس عمل کاکوئی گناہ نہیں، اور آپ   کی تنخواہ حلال ہے، تاہم جب تک ممکن ہو آپ   حتی المقدور محنت جاری رکھیں اور کوشش کرتے رہیں کہ کسی طرح  کمپنی میں تصویر  بنانے کایہ عمل رک  ہوجاۓ۔

حدیثِ مبارک میں ارشاد ہے:

"عن ‌عائشة رضي الله عنها: أنها اشترت ‌نمرقة فيها تصاوير، فقام النبي صلى الله عليه وسلم بالباب، فلم يدخل، فقلت: أتوب إلى الله مما أذنبت؟ قال: ما هذه النمرقة؟ قلت: لتجلس عليها وتوسدها، قال: إن أصحاب هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم، وإن الملائكة لا تدخل بيتا فيه الصورة."

(صحيح البخاري، كتاب اللباس، ‌‌باب من كره القعود على الصورة، ٧/ ١٦٨، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ:’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے ایک ایسا گدا خریدلیا تھاجس میں تصاویر تھیں، رسول اللہ   ﷺ نے جب ان تصویروں کو دیکھا تو دروازے پر رک گئے ،گھر میں داخل نہیں ہوئے، میں نے عرض کیا کہ: میں اللہ اور اس کے رسول  ﷺ کی طرف توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا گناہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :یہ گدا کیسا ہے؟میں نے عرض کیا کہ: یہ آپ کے بیٹھنے اور تکیہ لگانے کے  لیے ہے، آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ: ان تصویر والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، ان سے کہا جائے گا کہ جو صورتیں تم نے پیدا کی ہیں، ان میں جان بھی ڈالو، اور فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصاویر ہوں‘‘۔

شرح النووی على مسلم میں ہے:

"قال أصحابنا وغيرهم من العلماء ‌تصوير ‌صورة ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث وسواء صنعه بما يمتهن أو بغيره فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء ما كان فى ثوب أو بساط أودرهم أو دينار أو فلس أو إناء أو حائط أو غيرها."

(كتاب اللباس والزينة، باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان الخ، ١٤/ ٨١، ط:داراحیاء التراث)

فتاویٰ شامی میں ہے:

‌"وظاهر ‌كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم و إناء."

(كتاب الصلاة، مطلب في مكروهات الصلاة،١/ ٦٤٧، ط:سعيد)

نیز مفتی اعظم پاکستان، مفتی شفیع عثمانی صاحب ؒ  تحریر فرماتے ہیں:

"تصویر اور تخلیق اللہ تعالیٰ جل شانہ کی خاص صفات ہیں جن میں کوئی غیراللہ شریک نہیں ہوسکتا،  حق تعالیٰ کے ننانوے اسماء حسنی میں سے ایک خالق اور مصور بھی ہے اور اس پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں اسم حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں ، غیر اللہ پر ان الفاظ کا اطلاق بھی جائز نہیں ہے ، قرآن کریم کا ارشاد ہے:  هُوَ اللّهُ الْخَالِقُ الْبَارِي ئُ الْمُصَوِّرُ اس میں خالق اور مصور ہونے کی صفت حق تعالیٰ شانہ کی مخصوص صفت قرار دی گئی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شریک نہیں ہوسکتا،  تو جس شخص نے کسی جاندار کی تصویر بنائی ، اُس نے گویا صفتِ تخلیق و تصویر میں مداخلت اور شرکت کا عملی دعوی کیا ۔"

(تصویر کے شرعی احکام ، ص : ١٥، ط: ادارۃ المعارف کراچی)

درر الحكام فی شرح مجلۃ الاحكام ميں ہے:

"‌إذا ‌اجتمع ‌المباشر والمتسبب أضيف الحكم إلى المباشر هذه القاعدة مأخوذة من الأشباه. ويفهم منها أنه ‌إذا ‌اجتمع ‌المباشر أي عامل الشيء وفاعله بالذات مع المتسبب وهو الفاعل للسبب المفضي لوقوع ذلك الشيء ولم يكن السبب ما يؤدي إلى النتيجة السيئة إذا هو لم يتبع بفعل فاعل آخر، يضاف الحكم الذي يترتب على الفعل إلى الفاعل المباشر دون المتسبب."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادة: ٩٠، ط: دار الجيل)

المحیط البرہانی میں ہے:

"(ولا يجوز قبول هدية أمراء الجور) لأن الغالب في مالهم الحرمة (إلا إذا علم أن أكثر ماله من حل) بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به.

وفي البزازية ‌غالب ‌مال المهدي إن حلالا لا بأس بقبول هديته وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام؛ لأن أموال الناس لا يخلو عن حرام فيعتبر الغالب وإن غالب ماله الحرام لا يقبلها ولا يأكل إلا إذا قال إنه حلال أورثته واستقرضته."

(كتاب الكراهية، ٢/ ٥٢٩،  ط:دارالكتب العلمية)

شرح المجلہ لسلیم رستم باز میں ہے:

"الأمور بمقاصدها.

يعني: أن ‌الحكم ‌الذي ‌يترتب ‌على أمر يكون على مقتضى ما هو المقصود من ذلك الأمر.

ثم إعلم أن الكلام هنا علي حذف المضاف والتقدير حكم الأمور بمقاصد فاعلها، أي أن الأحكام الشرعية التي تترتب علي أفعال المكلفين  منوطة بمقاصدهم من تلك الأفعال، فلو أن الفاعل المكلف قصد بالفعل الذي فعله أمرا مباحا كان فعله مباحا، وإن قصدأمرا محرما كان فعله محرما."

(المقالة الثانية: في بيان القواعد الكلية الفقهية، ١/ ١٤، ط:رشيدية)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وإذا أخطأ الحاكم خطأ غير أساسي لا يمس أصول الشريعة وجب على الرعية تقديم النصح له باللين والحكمة والموعظة الحسنة.

لا تجب الطاعة عند ظهور معصية تتنافى مع تعاليم الإسلام القطعية الثابتة، لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا طاعة لأحد في معصية الله، إنما الطاعة في المعروف» «لا طاعة لمن لم يطع الله»."

(القسم الخامس: الفقه العام،‌‌ الباب السادس: نظام الحكم في الإسلام،‌‌ الفصل الثاني: سلطة التنفيذ العليا ـ الإمامة،‌‌ المبحث السابع: حقوق الإمام الحاكم، حق الطاعة، ٨/ ٩٢، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100988

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں