بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسے شخص کو حج بدل کے لیے بھیجنے کا حکم جس نے عدم استطاعت کی بنا پر حج فرض نہ کیا ہو


سوال

میری پھوپھی حیات ہیں، لیکن بیماری کی وجہ سے حج ادا نہیں کر سکتیں،  72سال عمر ہےاور صاحب استطاعت ہیں،  کیا ان کی طرف سے ان کی زندگی میں ہی میں حج بدل ادا کر سکتا ہوں ؟ یاد رہے کہ میں نے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے  اب تک حج ادا نہیں کیا ہے، البتہ الحَمْدُ ِلله عمرہ ادا کیا ہے اور حج پر جانے کی بہت خواہش ہے‎۔

جواب

(۱) افضل و بہتر   صورت یہ ہے کہ حج بدل اس شخص سے کرایا جائے جو اپنا حجِ فرض ادا کر چکا ہو۔

(۲)اور جس شخص کو حج پر بھیجا جا رہا ہو اگر اس پر حج فرض ہے اور  ابھی تک ادا نہیں کیا تو اس کے لیے حجِ بدل پر جانا مکروہِ تحریمی  ہے؛ کیوں کہ عین ممکن ہے کہ اگلے سال حج کا موقع آنے تک اس کی موت واقع ہوجائے، اور وہ زندگی میں اپنا فریضہ ادا کیے بغیر اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کرکے گناہ گار ٹھہرے۔

(۳) جس شخص کو حجِ بدل کے لیے بھیجا جا رہا ہو اگر اس نے اپنا حجِ فرض ادا کر لیا ہو تو اس کے لیے اپنا نفلی حج کرنے سے کسی دوسرے کی طرف سے حجِ بدل کرنا افضل ہے؛ کیوں کہ نفلی حج کا ثواب صرف اس کی ذات تک محدود ہے، جبکہ حجِ بدل کا ثواب اس کو بھی ملے گا، اور حجِ بدل کرانے والے کو بھی ملے گا، اس دوہرے نفع کی بنا پر حجِ بدل کسی کی طرف سے کرنا نفلی حج کرنے سے افضل ہے۔

(۴)   جس شخص نے اپنا حجِ فرض ادا نہ کیا ہو اس شخص سے حجِ بدل کرانا حج کرانے والے کے حق میں بہر صورت مکروہ ہے۔

(۵)  البتہ بھیجنے والے کا حج مذکورہ تمام صورتوں میں  ادا ہوکر وہ بری الذمہ ہوجائے گا۔

 مذکورہ بالا تفصیل کی رُو سے  اگر سائل کی پھوپھی واقعۃً ایسی بیماری میں مبتلا ہیں کہ خود حج ادا نہیں کر سکتیں   اور اس طرح معذوری ہے کہ سواری پر سوار ہونے سے قاصر ہیں ، اور  آئندہ  بھی اس کی امید نہیں  ہے  کہ وہ حج خود سے ادا  کر سکیں گی، تو افضل  یہ ہے کہ اپنی طرف سے حج ادا کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کو بھیجیں جو خود اپنا حج فرض ادا کر چکا ہو  ، لیکن اگر وہ سائل کو   بھیجیں تو یہ  درست تو  ہے لیکن کراہتِ تنزیہیہ پھر بھی پائی جا ئے گی ،    اور سائل کا   اپنی پھوپھو  کی طرف سے  حجِ بدل  ادا کرنے  سے  ان   کا فرض ادا ہو جائے گا۔

"فتح القدير " میں ہے:

"والأفضل ‌إحجاج الحر العالم بالمناسك الذي حج عن نفسه حجة الإسلام."

(كتاب الحج، باب الحج عن الغير، ج:3، ص:151، ط:دار الفكر) 

" رد المحتار "میں ہے:

"وقال في الفتح أيضا والأفضل أن يكون قد حج عن نفسه حجة الإسلام خروجا عن الخلاف، ثم قال: والأفضل إحجاج الحر العالم بالمناسك الذي حج عن نفسه وذكر في البدائع كراهة إحجاج الصرورة لأنه تارك فرض الحج، ثم قال في الفتح بعد ما أطال في الاستدلال: والذي يقتضيه النظر أن حج الصرورة عن غيره إن كان بعد تحقق الوجوب عليه بملك الزاد والراحلة والصحة فهو مكروه كراهة تحريم لأنه يتضيق عليه في أول سني الإمكان فيأثم بتركه، وكذا لو تنفل لنفسه ومع ذلك يصح لأن النهي ليس لعين الحج المفعول بل لغيره وهو الفوات، إذ الموت في سنة غير نادر. اهـ. قال في البحر: والحق أنها تنزيهية على الآمر لقولهم والأفضل إلخ تحريمية على الصرورة المأمور الذي اجتمعت فيه شروط الحج ولم يحج عن نفسه لأنه أثم بالتأخير اهـ. قلت: وهذا لا ينافي كلام الفتح لأنه في المأمور، ويحمل كلام الشارح على الآمر، فيوافق ما في البحر من أن الكراهة في حقه تنزيهية وإن كانت في حق المأمور تحريمية."

(كتاب الحج، باب الحج عن الغير، ج:2، ص:603، ط:سعيد)

"البحر العمیق" میں ہے:

"ولا فرق بين أن يكون الحاج عن الغير قد حج عن نفسه أو كان صرورة لم يحج عن نفسه؛ فإنه يجوز في الحالتين جميعا، إلا أن الأفضل أن يكون قد حج عن نفسه...؛لأن الأداء عن نفسه لم يجب في وقت معين، فالوقت كما يصح لحجه عن نفسه يصلح لحجه عن غيره، فإذا عينه لحجه عن غيره وقع عنه، ولهذا لو حج الصرورة بنية النفل يقع عن النفل؛ لأن الوقت لم يتعين للفرض، بل يقبل الفرض والنفل، فإذا عينه للنفل تعين له إلا عند إطلاق النية يقع عن الفرض لوجود نية الفرض بدلالة حاله؛ إذ الظاهر أنه لا يقصد النفل وعليه الفرض، فانصرف المطلق إلي المقيد بدلالة حاله، لكن الدلالة إنما تعتبر عند عدم النص بخلافها، فإذا نوى التطوع فقد وجد النص بخلافها، فلا تعتبر الدلالة ،إلا أن الأفضل أن يكون قد حج عن نفسه؛ لأنه بالحج عن غيره يصير تاركا إسقاط الفرض عن نفسه، فيتمكن في هذا الإحجاج ضرب كراهة." 

(الباب الثامن عشر في الحج عن الغير، حج الصرورة عن غيره، ج:4، ص:2263/2267، ط:مؤسسة الريان)

فیہ ایضا:

"حج الإنسان عن غيره افضل من حجه عن نفسه بعد ان ادي فرض الحج؛ لأنه يصير نفعه متعديا، و في حجه عن نفسه يقع قاصرا، والنفع المتعدي افضل من القاصر."

(الباب الثامن عشر في الحج عن الغير، حج الصرورة عن غيره، ج:4، ص:2257، ط:مؤسسة الريان)

"الدر المختار مع رد المحتار" میں ہے:

"(فرض)...(مرة)...(على الفور)...(على مسلم)...(صحيح) البدن (بصير) غير محبوس وخائف من سلطان يمنع منه.
(قوله صحيح البدن) أي سالم عن الآفات المانعة عن القيام بما لا بد منه في السفر، فلا يجب على مقعد ومفلوج وشيخ كبير لا يثبت على الراحلة بنفسه وأعمى، وإن وجد قائدا، ومحبوس."

(كتاب الحج، ج:2، ص:455-459، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101737

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں