بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسی نظمیں سننے کا حکم جن میں آواز سے موسیقی پیدا کی گئی ہو


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ آج کل جو اناشیدز آتی ہیں ووکلز کے ساتھ جس میں میوزک نہیں ہوتا، سارے افیکٹز ووکلز سے آتے ہیں، ان کو سننا ٹھیک ہے؟

جواب

واضح رہے کہ وہ غنا (سُر)  جو آلاتِ موسیقی کے ذریعہ  پیدا کی جائے اس کا سننا تو احادیث میں صراحتاً ممنوع قرار دیا گیا ہے، اسی وجہ سے فقہاء نے (بھی) اس کے سننے کو حرام قرار دیا ہے، لیکن وہ موسیقی جو محض منہ کی آواز سے پیدا کی جائے، جس میں کسی آلہ کو استعمال نہ کیا گیا ہو لیکن آواز اُسی موسیقی جیسی ہو جو آلہ کی مدد سے پیدا کی جاتی ہے،  اس طرح کی موسیقی اگرچہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور فقہائے متقدمین کے زمانہ میں نہیں تھی کیوں کہ اس کی ایجاد انیسویں صدی میں ہوئی ہے، تاہم چوں کہ ماہرین نے اسے بھی موسیقی کی ایک قسم کے طور پر ذکر کیا ہے اور شریعتِ مطہرہ میں آلاتِ موسیقی بذاتِ خود مقصود نہیں ہیں، بلکہ آواز مقصود ہے، لہذاموسیقی جیسی آواز خواہ کسی بھی طرح سے ہو، اس کا سننا شرعاً ناجائز ہوگا۔

نیز اس میں فساق کے ساتھ تشبہ بھی پایا جاتا ہے جس سے حدیث میں ممانعت وارد ہوئی ہے اس لیے بھی اس سے بچنا ضروری ہے۔

لہذا ایسی اناشید  اور ترانے جن میں منہ سے نکلی ہوئی ایسی آوازیں شامل کی گئی ہوں جو موسیقی کی آواز کی طرح ہوں، ان کا سننا بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن  جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع ، رواه البيهقي في " شعب الإيمان. وعن نافع رحمه الله قال : كنت مع ابن عمر في طريق فسمع مزماراً، فوضع أصبعيه في أذنيه، وناء عن الطريق إلى الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد : يا نافع هل تسمع شيئاً ؟ قلت : لا، فرفع أصبعيه عن أذنيه قال : كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمع صوت يراع، فصنع مثل ما صنعت . قال نافع: فكنت إذ ذاك صغيراً . رواه أحمد وأبو داود."

(کتاب الآداب، باب البیان و الشعر، ج: 3، ص: 1355، ط: المتکب الاسلامی)

البحر الرائق میں ہے:

"استماع صوت الملاهي حرام كالضرب بالقصب وغيره قال  عليه الصلاة والسلام: استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر وهذا خرج على وجه التشديد لا أنه يكفر."

(کتاب الکراہیۃ، ج: 8، ص: 215، ط: دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اختلفوا في التغني المجرد قال بعضهم إنه حرام مطلقا والاستماع إليه معصية وهو اختيار شيخ الإسلام ولو سمع بغتة فلا إثم عليه ومنهم من قال لا بأس بأن يتغنى ليستفيد به نظم القوافي والفصاحة ومنهم من قال يجوز التغني لدفع الوحشة إذا كان وحده ولا يكون على سبيل اللهو وإليه مال شمس الأئمة السرخسي."

(کتاب الکراہیۃ، الباب السابع عشر فی الغناء و اللہو و سائر المعاصی و الامر بالمعروف، ج: 5، ص: 351، ط: رشیدیہ)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) : أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير."

(کتاب اللباس، الفصل  الثانی، ج: 7، ص: 2782، ط: دار الفکر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100653

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں