اگر لڑکا کچھ کماتا نہ ہو تو اس سے نکاح کر لینا چاہیے کہ نہیں یا جب وہ کمانا شروع کرے تب اس سے نکاح کرنا چاہیے ؟
اگر لڑکے کی طرف سے کوئی اس کی بیوی کے نفقے کا بندوبست کرے، جیساکہ ہمارے معاشرے میں باپ اپنی بہو کے بھی اخراجات برداشت کرتا ہے تو شوہر نفقے پر قاد رسمجھاجائے گا اور اس سے نکاح کیا جاسکتا ہے ، لیکن اگر لڑکا خود بھی نہ کماتا ہو اور اس کے والد یا کوئی اور بھی اس کی طرف سے اخراجات کی ذمہ داری نہ لے تو اس صورت میں وہ شخص بیوی کے حقوق کی ادائیگی پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے نکاح سے احتراز کرے، جب صاحبِ استطاعت ہوجائے، تب نکاح کرے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة".
(کتاب الطلاق ، الباب السابع عشر في النفقات ، الفصل الرابع في نفقة الأولاد ج: 1 ص: 562 ط: دار الفکر )
وفیہ ایضا:
"تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية دخل بها أو لم يدخل كبيرة كانت المرأة أو صغيرة يجامع مثلها كذا في فتاوى قاضي خان سواء كانت حرة أو مكاتبة كذا في الجوهرة النيرة".
(کتاب الطلاق ، الباب السابع عشر في النفقات ، الفصل الأول في نفقة الزوجة ج: 1 ص: 544 ط: دار الفکر )
وفیہ ایضا:
"و إن كفل للمرأة رجل بنفقة كل شهر لم يكن كفيلا إلا بنفقة شهر واحد، ولو قال الكفيل: كفلت لك عن زوجك بنفقة سنة كان كفيلا بنفقة السنة، وكذا لو قال: كفلت لك بالنفقة أبدا أو ما عشت كان كفيلا بالنفقة ما دامت في نكاحه".
(کتاب الطلاق ، الباب السابع عشر في النفقات ، الفصل الأول في نفقة الزوجة ج: 1 ص: 553 ط: دار الفکر )
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144503100862
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن