بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عیسائی مرد سے مسلمان خاتون کے نکاح کا حکم


سوال

میری ایک عزیزہ جو امریکہ میں مقیم ہیں اور طلاق یافتہ ہیں وہ ایک عیسائی مرد سے  شادی کرنا چاہتی ہیں اور اس معاملہ میں اُس کے والد اور بھائی بھی اُس کو سپورٹ کر رہے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ:

1۔کیا ایک مسلمان عورت کا عیسائی مرد سے شادی کرنا جائز ہے؟

2۔جو لوگ اس شادی میں اُس کے لیے معاون بن رہے ہیں، شرعًا اُن کے لیے کیا حکم ہے؟

3۔ اگر یہ عورت عیسائی مرد سے شادی کرلیتی ہے تو اس کا ایک بچہ جو سابقہ شوہر سے ہے اور جس کی عمر دس سال ہے ، اُس کے پرورش کے بارے میں کیا حکم ہے؟

وضاحت: سابقہ شوہر زندہ ہے، اُس نے طلاق دی تھی۔

جواب

1۔واضح رہے کہ کسی مسلمان خاتون کا نکاح کسی غیر مسلم مرد (خواہ وہ عیسائی، یہودی ہو یا کوئی اور غیر مسلم ہو) کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں ہے، اگر نکاح کیا تو شرعًا یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا، اور ایسے نکاح کے بعد جو تعلق قائم ہوگا وہ زنا اور بدکاری ہوگی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مسلمان خاتون کا نکاح عیسائی مرد سے ناجائز  اور حرام ہے، اگر نکاح کیا تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا اور ایسے نکاح کے نتیجے میں اس عیسائی مرد کے ساتھ جو تعلق قائم ہوگا وہ زنا اور بدکاری ہوگی۔

2۔جو لوگ اس شادی میں معاون بن رہے ہیں، وہ ایک ناجائز اور حرام کام میں معاون بن رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں، اُن کو چاہیے کہ اس ناجائز کام میں مذکورہ خاتون کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہ کریں، بلکہ اس خاتون کے والد اور بھائی پر لازم ہے کہ وہ حکمت سے اس خاتون کو سمجھائیں اور اس ناجائز نکاح کرنے سے اُسے باز رکھیں، اگر اُنہوں نے اس ناجائز نکاح کے سلسلہ میں مذکورہ خاتون کے ساتھ کسی بھی طرح سے معاونت کی یا اُسے سمجھانے اور اس ناجائز کام سے روکنے میں کوئی کوتاہی کی تو اس کی وجہ سے وہ بھی سخت گناہ گار ہوں گے۔

3۔واضح رہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان طلاق یا خلع کی وجہ سے علیحدگی  ہوجائے تو لڑکے کی عمر سات سال ہونے تک اس کی پرورش کا حق اس کی والدہ کو ہوتا ہے، پھر اس کے بعد اس کی تعلیم وتربیت کا حق اس کے والد کو ہوتا ہے، صورتِ مسئولہ میں والدہ کے حق میں  بچے کی پرورش کی عمر چوں کہ پوری ہوچکی ہے، لہٰذا اب اُس کی تعلیم وتربیت اور پرورش کاحق اُس کے والد کو حاصل ہے ، وہ بہر دو صورت  خواہ والدہ دوسری جگہ شادی کرے یا نہ کرے اپنے والد (مذکورہ خاتون  کے سابقہ شوہر) کے پاس رہے گا۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ولا يجوز تزوج المسلمة من مشرك ولا كتابي، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السابع المحرمات بالشرك، 282/1، ط: رشيدية)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ألا) للتنبيه («كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته») . في النهاية الرعية كل من شمله حفظ الراعي ونظره («فالإمام الذي على الناس راع وهو مسئول عن رعيته») يقال: رعى الأمير القوم رعاية فهو راع ; أي قام بإصلاح ما يتولاه، وهم رعية فعيلة بمعنى مفعول، ودخلت التاء لغلبة الاسمية («والرجل راع على أهل بيته، وهو مسئول عن رعيته، والمرأة راعية على بيت زوجها وولده») ; أي ولد زوجها (وهي مسئولة عنهم) عن حق زوجها وأولاده، وقال الطيبي: الضمير راجع إلى بيت زوجها وولده، وغلب العقلاء فيه على غيرهم («وعبد الرجل راع على مال سيده») في شرح السنة معنى الراعي هنا ; الحافظ المؤتمن على ما يليه، أمرهم النبي - صلى الله عليه وسلم - بالنصيحة فيما يلونهم، وحذرهم الخيانة فيه بإخباره أنهم مسئولون عنه، فالرعاية حفظ الشيء وحسن التعهد، فقد استوى هؤلاء في الاسم ولكن معانيهم مختلفة، أما رعاية الإمام ولاية أمور الرعية: فالحياطة من ورائهم، وإقامة الحدود والأحكام فيهم. ورعاية الرجل أهله: فالقيام عليهم بالحق في النفقة، وحسن العشرة. ورعاية المرأة في بيت زوجها: فحسن التدبير في أمر بيته والتعهد بخدمة أضيافه. ورعاية الخادم: فحفظ ما في يده من مال سيده والقيام بشغله (ألا) للتنبيه ثانيا للتأكيد (فكلكم) قال الطيبي: الفاء جواب شرط محذوف يعني تقديره ; فإذا كان الأمر كذلك على ما فصلناه فكلكم (راع وكلكم مسئول عن رعيته)."

(كتاب الإمارةوالقضاء، الفصل الأول، 2402/6، ط: دارالفکر)

تفسیرِ ابنِ کثیر میں  ہے:

"(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ) .... قال سفيان الثوري عن منصور عن رجل عن علي رضي الله عنه في قوله تعالى: قوا أنفسكم وأهليكم نارا يقول: أدبوهم وعلموهم ، وقال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس قوا أنفسكم وأهليكم نارا يقول اعملوا بطاعة الله واتقوا معاصي الله، وأمروا أهليكم بالذكر ينجكم الله من النار، وقال مجاهد قوا أنفسكم وأهليكم نارا قال اتقوا الله وأوصوا أهليكم بتقوى الله، وقال قتادة تأمرهم بطاعة الله وتنهاهم عن معصية الله وأن تقوم عليهم بأمر الله وتأمرهم به وتساعدهم عليه فإذا رأيت لله معصية ردعتهم عنها وزجرتهم عنها، وهكذا قال الضحاك ومقاتل: حق على المسلم أن يعلم أهله من قرابته وإمائه وعبيده ما فرض الله عليهم وما نهاهم الله عنه."

(سورة التحريم، الآية: 6، 188،189/8، ط: دارالكتب العلمية)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله تعالٰى:(وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ) يأمر تعالٰى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى وينهاهم عن التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم، قال ابن جرير : الإثم ترك ما أمر الله بفعله والعدوان مجاوزة ما حد الله لكم في دينكم ومجاوزة ما فرض الله عليكم في أنفسكم وفي غيركم....قلت: وله شاهد في الصحيح «من دعا إلى هدي كان له من الأجر مثل أجور من اتبعه إلى يوم القيامة لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا، ومن دعا إلى ضلالة كان عليه من الإثم مثل آثام من اتبعه إلى يوم القيامة لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا."

(المائدة: 2، 10،11/3، ط: دارالكتب العلمية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب."

(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3، ص: 567، ط: سعید)

وفیہ ایضًا:

"(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية.

قال ابن عابدین: (قوله: ولا خيار للولد عندنا) أي إذا بلغ السن الذي ينزع من الأم يأخذه الأب، ولا خيار للصغيرلأنه لقصور عقله يختار من عنده اللعب، وقد صح أن الصحابة لم يخيروا. وأما حديث أنه - صلى الله عليه وسلم - خير فلكونه قال: اللهم اهده. فوفق لاختيارالأنظر بدعائه - عليه الصلاة والسلام-، وتمامه في الفتح."

(کتاب الطلاق، باب الحضانة، 3/567،568، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101909

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں