بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

اس شرط پر وارث کو زندگی میں کچھ دینا کہ مورث کی موت کے بعد میراث میں نہیں ملے گا۔


سوال

دو بھائی ہیں، جو شادی شدہ ہیں،بڑے بھائی کی بیوی اپنے سسر سے اپنے شوہر کا حصہ لے کر الگ ہونا چاہتی ہے، بڑا بھائی بھی اس پر راضی ہے،اس بات پر تمام ورثاء راضی ہیں، اس شرط پر کہ والد صاحب کی وفات کے بعد یہ بیٹا کوئی حصہ نہیں لے گا، شرعاً اس کا والد کی حیات میں کتنا حصہ بنتا ہے؟ جائیداد میں ایک پلاٹ،تین فلیٹ اور ایک مکان ہے، جس کی کل مالیت کی ابھی صحیح معلومات  نہیں،اب  بڑاے بھائی اور اس کی بیوی کو ایک پلاٹ اور فلیٹ دے رہے ہیں، اگر یہ حصہ والد کی وفات کے بعد شرعی تقسیم کے مطابق زیادہ نکلا،تو کیا زیادہ حصہ واپس لیا جاسکتا ہے، یا اگر ان کا حصہ کم نکلا، توان کو مزید کچھ دیا جائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ جب تک صاحب جائیداد زندہ ہے،وہ اپنی تمام جائیداد مال ومتاع کا تنِ تنہا خود مالک ہوتا ہے، اولاد وغیرہ کا کوئی حق نہیں ہوتا،اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہوتا ہے، تا ہم صاحب جائیداد مثلاً والد اگر اپنی خوشی اور رضامندی سے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنا چاہے،تو بحسب شرائط کرسکتا ہے،اسی طرح باقی رضامندی سے والد اپنی اولاد میں سے کسی کو کچھ مال وغیرہ اس شرط پر دے کر فارغ کردے کہ والد کے انتقال کے بعد ترکہ میں سے کوئی حصہ نہیں ہوگا،اور وہ بیٹا اس شرط کو قبول کرلے تو ایسا معاہدہ شرعاً درست ہوگا۔

لہذا مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں  جس بیٹے کو زندگی میں حصہ دے کر فارغ کرنا چاہتا ہے، اس شرط کے تحت والد کے انتقال کے بعد اس کا والد کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہوگا،اور بیٹا اس  پر راضی ہوجائے،تو ایسا معاہدہ کرنا درست ہے۔ بعد ازاں والد کے انتقال کے بعد ترکہ میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور وہ اس پر راضی ہوجائے تو  جو کچھ دیا جائے وہ اس بیٹے کا حصہ بن جائے  گااور بعد میں ترکہ میں مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ والد کی وفات کےبعد اس کےکم ہونے یا زیادہ ہونے کی صورت میں اس سے کچھ نہیں لیا جائےا ور نہ دیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"واعلم أن ‌الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل جاز وبه أفتى بعضهم وقيل لا."

(كتاب الوصايا، ج: 6، ص: 655، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100338

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں