بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

این جی او میں ملازمت کا حکم


سوال

مجھےاین جی او میں نوکری چاہیے،کیا میرے لیے این جی او میں نوکری کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  جس "این جی او"  میں ملازم سے  خلافِ شریعت کام نہ لیا جاتا ہو اور اس" این جی او "کے پسِ پردہ مقاصد، اسلام کے خلاف نہ ہوں، بلکہ رفاہِ عامہ کے کاموں میں ہی مصروف رہتی ہو،جو کہ ایک جائز فعل ہے، تو اس میں نوکری کرنا  اور تنخواہ وصول کرناجائز ہے، لیکن جس" این جی او "میں ملازم سے خلافِ شرع (ناجائز)  کام لیا جاتا ہو یا اس" این جی او" کے مقاصد خلافِ شریعت ہوں    اور وہ "انسانیت کی خدمت اور فلاحی کاموں"  کی آڑ میں  اپنے باطل مذہب کی تبلیغ کر رہی ہویاکفریہ عقائداور باطل و مذموم نظریات کو فروغ دے رہی ہو یاکسی دوسری غیر شرعی سرگرمی میں ملوث ہو  تو پھرایسی این جی او کی  ملازمت اور کمائی دونوں گناہ میں معاونت کی وجہ سے ناجائز ہیں۔

قرآن مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى ‌وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ."(المائدة:2)

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ،بلاشبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے."(بیان القرآن )

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(المائدۃ : 296/3، ط: داراحیاء التراث العربي)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أيها الناس، إن الله طيب ولا يقبل إلا طيبا وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين»، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51]، وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 172] قال: «وذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يده إلى السماء يا رب، يا رب ‌ومطعمه ‌حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك»."

(أبواب تفسیر القرآن، ومن سورۃ البقرۃ،128/2,ط:قديمي)

فتح الباری میں ہے:

"أورد فيه حديث خباب وهو إذ ذاك مسلم في عمله للعاص بن وائل وهو مشرك وكان ذلك بمكة وهي إذ ذاك دار حرب واطلع النبي صلى الله عليه وسلم على ذلك وأقره ولم يجزم المصنف بالحكم لاحتمال أن يكون الجواز مقيدا بالضرورة أو أن جواز ذلك كان قبل الإذن في قتال المشركين ومنابذتهم وقبل الأمر بعدم إذلال المؤمن نفسه وقال المهلب كره أهل العلم ذلك إلا لضرورة بشرطين أحدهما أن يكون عمله فيما يحل للمسلم فعله والآخر أن لا يعينه على ما يعود ضرره على المسلمين وقال بن المنير استقرت المذاهب على أن الصناع في حوانيتهم يجوز لهم العمل لأهل الذمة ولا يعد ذلك من الذلة بخلاف أن يخدمه في منزله وبطريق التبعية له والله أعلم."

(كتاب صلوة التراويح،‌‌قوله باب هل يؤاجر الرجل نفسه من مشرك في أرض الحرب، 452/4، ط: دار المعرفة)

ہدایہ میں ہے:

"قال: "ولا يجوز الاستئجار على الغناء والنوح، وكذا سائر الملاهي"؛ لأنه استئجار على ‌المعصية والمعصية لا تستحق بالعقد."

(كتاب الإجارات،‌‌باب الإجارة الفاسدة،238/3،ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102458

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں