بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ائمہ حرمین عورتوں کی اقتدا کی نیت کرتے ہیں


سوال

حرمین شریفین کے ائمہ کرام عورتوں کی امامت کی نیت کرتے ہیں یانہیں؟ عورتوں کی نماز ان کی اقتدا  اس میں درست ہے یا نہیں؟ اگر آئمہ حرمین شریفین عورتوں کی نیت نہیں کرتے تو کیا ابتلاءِ  عام کی بنا پر بلا نیت ائمہ کرام عورتوں کی نماز ان کی اقتدا  میں درست ہوگی  یا نہیں؟

جواب

عورتوں کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی دو صورتیں ہیں:

1۔اگرعورتیں مردوں کے ساتھ صفوں میں  مل کریا مردوں سے آگے کھڑی ہوتی ہیں، تو امام کے لیے عورتوں کی امامت کی نیت کرنا ضروری ہے، اگر امام نے عورتوں کی امامت کی نیت نہیں کی، یا یہ معلوم ہی نہ ہو کہ امام نے عورتوں  کی نیت کی ہے یا نہیں تو عورتوں کی اس امام کی اقتدا  میں نماز ادا کرنا درست نہیں۔

2۔اگر عورتیں مردوں کی صفوں میں مل کر  یا مردوں سے آگے کھڑی نہیں ہوتیں، بلکہ مردوں کے پیچھے الگ صفوں میں  کھڑی ہوتی ہیں، تو امام کے لیے ان  کی اقتدا  کی نیت کرنا ضروری نہیں، امام کے نیت کرے بغیر اقتدا  درست ہوگی۔

تاہم دونوں صورتوں میں سے جو بھی صورت ہو، حرمین شریفین میں چوں کہ عورتوں بھی  جماعت سے نماز پڑھتی ہیں، اس لیے ائمہ حرمین عورتوں کی اقتدا  کی بھی نیت کرتے ہیں، لہٰذا  حرمین شریفین میں عورتوں کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے۔جیسا کہ عام مشاہدہ بھی یہی ہے، اور عورتوں کی بھی ایک کثیر مقدار نماز میں شریک ہوتی ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(والإمام ينوي صلاته فقط) و (لا) يشترط لصحة الاقتداء نية (إمامة المقتدي) بل لنيل الثواب عند اقتداء أحد به قبله كما بحثه في الأشباه (لو أم رجالا) فلا يحنث في لا يؤم أحدا ما لم ينو الإمامة (وإن أم نساء، فإن اقتدت به) المرأة (محاذية لرجل في غير صلاة جنازة، فلا بد) لصحة صلاتها (من نية إمامتها) لئلا يلزم الفساد بالمحاذاة بلا التزام (وإن لم تقتد محاذية اختلف فيه) فقيل يشترط وقيل لا كجنازة إجماعا، وكجمعة و عيد على الأصح خلاصة وأشباه، وعليه إن لم تحاذ أحدا تمت صلاتها وإلا لا".

"(قوله: كجنازة) فإنه لا يشترط لصحة اقتداء المرأة فيها نية إمامتها إجماعا لأن المحاذاة فيها لاتفسدها (قوله: على الأصح) حكوا مقابله عن الجمهور (قوله: وعليه) أي على القول بأنه لايشترط لصحة اقتدائها نية إمامتها فيصح اقتداؤها لكن إن لم تتقدم بعد ولم تحاذ أحدا من إمام أو مأموم بقي اقتداؤها وتمت صلاتها، وإلا: أي وإن تقدمت وحاذت أحداً لايبقى اقتداؤها ولاتتم صلاتها، كما في الحلية فليس ذلك شرطاً في الجمعة والعيد فقط، فافهم".

(کتاب الصلاة، ج:1، ص:424، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں