بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیٹا چھ بیٹیوں میں تقسیم ترکہ


سوال

 زید کے پاس ایک زمین تقریبًا  16مرلے ہے  جو  کہ اسے اس کے والد سے وراثت میں ملی ہے۔

زید کی 6بہنیں ، 5 بیٹیاں اور 2 بیٹے بھی ہیں،اب زید اس گھر پر 3 منزلہ عمارت بنانا چاہتا ہے،  جس میں سے 2 منزل پر جامعہ اور ایک منزل گھریلو رہائش کے لیے۔

اب اس کا اسلامی اور شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ 16 مرلہ زمین زید کے مرحوم ولدین یا ان میں سے کسی ایک کا ترکہ ہے، اور اب تک اس کی مرحوم کے شرعی وارثوں  میں تقسیم نہیں کی گئی ہے، تو اس صورت میں زید پر لازم ہوگا کہ وہ تمام ورثاء کو ان کا شرعی حصہ دے دے، اس کے بعد مذکورہ جگہ میں سے اس کے حصہ میں جو جگہ آئے اس  پر جامعہ تعمیر کرائے، تقسیم سے قبل مشترکہ جگہ پر اپنی مرضی سے جامعہ بنانے  کی شرعًا اجازت نہ ہوگی، البتہ اگر مذکورہ 16 مرلہ جگہ  وراثت کی تقسیم کے بعد اس کی ملکیت میں آئی ہو تو اس صورت میں وہ اپنی مرضی سے تعمیر کرنے کے بعد دو منزل پر جامعہ بنادے، اور ایک منزل اپنے اور گھر والوں کی رہائش کے لیے مختص کرلے، بہتر ہوگا کہ جگہ اپنی ملکیت میں ہی رکھے وقف نہ کرے، تاکہ اس کی موت کے بعد مذکورہ جگہ کے حوالے سے ورثاء  کو کسی دشواری کا سامنا نہ ہو۔

لہذا پہلی صورت میں مذکورہ  جگہ کو 8 حصوں میں تقسیم کرکے دو حصے زید کو ملیں گے، اور ایک ایک حصہ زید کی ہر ایک بہن کو ملے گا، جب کہ زید کی حیات میں زید کی اولاد محروم رہیں گے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201813

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں