بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک وقت میں دو بہنوں کو نکاح میں رکھنے والے سے قطع تعلقی کرنا


سوال

دو حقیقی بہنیں ایک شخص کے نکاح میں ہیں ان سے سماجی مقاطعہ کرنا جائز ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص دو حقیقی بہنوں کو ایک وقت نکاح میں رکھتا ہے اور سمجھانے کے باوجود اپنے اِس فعل سے توبہ تائب نہیں ہوتا تو ایسے شخص سے قطع تعلقی کر لینا چاہیے،تاوقتیکہ وہ اپنے اس فعل سے توبہ کرلے اور باز آ جائے۔

قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

﴿وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِہٖ ۭ وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ﴾ [الأنعام:۶۸]

ترجمہ: اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات میں عیب جوئی کررہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجا؛ یہاں تک کہ وہ کوئی اور بات میں لگ جائیں اور اگر تجھ کو شیطان بھلادے، تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس مت بیٹھ۔                               (بیان القرآن، آیت نمبر:۶۸)

اس آیت کے تحت من جملہ دیگر اَحکام کے محققین مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص فسق میں مبتلا ہو اور سمجھانے سے بھی باز نہ آئے اور قطع تعلق سے اس کی اصلاح کی امید ہو تو قطع تعلق کرلینا چاہیے۔ 

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(عن أبي أيوب الأنصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل لرجل أن يهجر» ) بضم الجيم (أخاه) أي: المسلم، وهو أعم من أخوة القرابة والصحابة. قال الطيبي: وتخصيصه بالذكر إشعار بالعلية، والمراد به أخوة الإسلام، ويفهم منه أنه إن خالف هذه الشريطة وقطع هذه الرابطة جاز هجرانه فوق ثلاثة…قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك…وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق". (۸/۳۱۴۶-۳۱۴۷، دار الفكر)

"باب ما يجوز من الهجران لمن عصى

أي هذا باب في بيان ما يجوز من الهجران لمن عصى وقال المهلب: غرض البخاري من هذا الباب أن يبين صفة الهجران الجائز وأن ذلك متنوع على قدر الإجرام فمن كان جرمه كثيرًا فينبغي هجرانه واجتنابه وترك مكالمته، كما جاء في كعب بن مالك وصاحبيه وما كان من المغاضبة بين الأهل والإخوان، فالهجران الجائز فيها ترك التحية والتسمية وبسط الوجه، كما فعلت عائشة في مغاضبتها مع رسول الله".

(عمدة القاري، كتاب البر والصلة ، باب ما يجوز  من الهجران لمن عصى ۲۲/ ۲۲۵ ط:دارالكتب العلمية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں