بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک وارث کی بہو کے لیے دوسرے وارث کے پاس سونا رکھوانے کا ایک مسئلہ


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام فقہ حنفی میں راجح قول کے مطابق اس مسئلے کہ بارے میں کہ:

میری امی نے اپنی زندگی میں سونا میرے حوالے کیا اور مجھ سے کہا کہ ”تم نے یہ سونا اپنی بڑی بہن کے بیٹے مرتضیٰ کو دینا ہے، یہ سونا میں نے تحفہ کے طور پر مرتضی کی بیوی کے لیے رکھا ہوا ہے،جب مرتضی کی شادی ہو تو اسے دے دینا اور بتانا کہ نانوں نے یہ تحفہ دیا ہے“۔ سونا حوالے کرنے کے کچھ عرصے بعد میری امی فوت ہو جاتی ہیں، مرتضی اس وقت 12سال کا ہے،اب مجھے پریشانی یہ لگی ہوئی ہے کہ مجھے خود اپنی زندگی موت کا نہیں پتا، میں نے سونا ایک تھیلی میں رکھا ہوا ہے اور اس میں ایک پرچی لکھ کر رکھی ہوئی کہ ”یہ سونا مرتضی کی نانوں نے مرتضی کی بیوی  کے لیےبطورِتحفہ کے دیا ہوا ہے جوکہ میرے پاس امانت پڑی ہے“، اب مرتضی کی شادی کب ہوتی ہے ؟ مجھے نہیں پتا، اس وقت تک میں زندہ بھی رہوں گا کہ نہیں، یہ بھی نہیں پتا۔

سوال: اِس سونے کو میں اپنے پاس ہی رکھوں؟ جب مرتضی کی شادی ہو جائے، اس دن مرتضی کے حوالے کروں؟ یا مرتضی کو ابھی 12سال کی عمر میں ہی حوالے کر دوں؟ یا میں رکھوں تو اپنے پاس ہی ،لیکن مرتضی کو اطلاع کر دوں کہ آپ کی نانوں نے آپ کی بیوی کے لیے ایک تحفہ میرے پاس رکھوایا ہوا ہے،  لیکن دوں گا تب جب آپ کی شادی ہو جائے گی؟ یا مرتضی جیسے ہی بالغ ہو تو اُس وقت اس کے حوالے کر دوں؛ تاکہ وہ خود اس ذمہ داری کو سنبھالے؟ یا مرتضی سمیت اُس کے امی ابو بہن بھائی اور اپنے گھر والوں سب کو بتا دوں کہ مرتضی کی نانوں نے میرے پاس مرتضی کی بیوی کے لیے ایک تحفہ میرے پاس رکھوایا ہوا ہے ؟اگرمیں مر گیا تو اسے میرے ترکے میں نہ سمجھا جائے، بلکہ یہ میرے پاس امانت پڑی ہے۔

جواب

واضح ہو کہ شرعی طور پر وصیت اسے کہتے ہیں جو مرحوم نے اپنی زندگی میں الفاظ کہے ہوں کہ میرے مرنے کے بعد فلاں کام کرنا۔ اگر اس طرح کے الفاظ مرحوم نے نہ کہے ہوں، بلکہ صرف ایک کام کرنے کی خواہش کی ہو اور وہ کام نہ کر سکا ہو تو اسے شرعاً وصیت نہیں کہا جائے گا۔

صورت مسئولہ میں چوں کہ آپ کی والدہ نے جو الفاظ کہے ہیں، وہ وصیت کے الفاظ نہیں ہیں لہذا جو سونا والدہ نے آپ کو امانتاً دیا تھا، وہ والدہ کے ترکہ میں شمار ہوکر ورثاء میں تقسیم ہوگا، مرتضی کی ہونے والی بیوی اس کی مستحق نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) عينًا كان أو دينًا."

(كتاب الوصية، ج٦، ص٦٤٨، سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100916

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں