بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک وارث وراثتی گھر پر قبضہ کرکے بیٹھا ہو تو اس سے ماضی اور مستقبل کے کرایہ لینے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ دین کہ ایک متمول صاحبِ خانہ انتقال کرگئے اور وراثت میں ایک قیمتی بنگلہ چھوڑ گئے۔ بنگلہ کیونکہ ورثا کے زیرِ استعمال تھا اس لیے فوری تقسیم کا عمل نہ ہوسکا۔ بعد ازاں بنگلہ کے مکین یکے بعد دیگر اسے خالی کرتے گئے اور اپنی اپنی رہائش اختیار کرلی۔ ورثا میں سے صرف ایک وارث بنگلہ میں مکین رہ گیا۔ اس وارث کو بنگلہ پر قبضہ کیے تقریباً بیس سال سے زائد عرصہ گزر گیا۔ اب موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ دیگر ورثا جن میں بیوہ بہنیں بھی ہیں اور یتیم بچے بھی (کیونکہ اس طویل عرصے میں کئی ورثا کا بھی انتقال ہوا)،  ان میں اکثر معاشی پریشانیوں میں بھی مبتلا ہیں۔ تمام وارثین چاہتے ہیں کہ بنگلہ فروخت کرکے ان کا شرعی حق انہیں مل جائے لیکن کئی سالوں سے کوششوں کے بعد بھی ممکن نہیں ہوپارہا، جس کا سبب وہ واحد قابض وارث ہے جس نے وراثتی بنگلے کو مقبوضہ بنگلہ بنا دیا ہے۔ قابض بنگلہ خالی کرنے کی بات تو کرتا ہے لیکن اپنی طے شُدہ قیمت پر جو مارکیٹ ویلیو سے اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ خریدار پلٹ جاتا ہے اور معاملہ سالوں سے تعطل کا شکار چلا آرہا ہے۔ بیان کردہ حقائق کی روشنی میں جناب سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

۱۔ ایسے شخص کے لیے شریعت نے کیا وعیدیں رکھی ہیں جو بیواؤں اور یتیموں کے مال پر قابض ہوکر بیٹھا ہو اور حق دینے کے معاملے میں لیت و لعل سے کام لے۔

۲۔ جتنے سالوں سے  قابض شخص گھر میں  تصرف کر رہا ہے، کیا اس اپ اتنے سالوں کا کرایہ اس کے شرعی حصے سے منہا کیا جاسکتا ہے؟ کرایہ کے حوالے سے کوئی بات ہوئی نہیں تھی ماضی میں۔

۳۔ اگر آئندہ کے لیے دیگر ورثا اس ایک وارث سے کرایہ لینا چاہیں تو اس کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

۱۔ واضح رہے  کہ موروثی جگہ میں اگر کوئی وارث تقسیم کا مطالبہ کرے تو تمام بالغ ورثاء پر اس کی تقسیم لازم ہوجاتی ہے تاکہ صاحبِ حق کو اس کا حق دیا جائے۔ تقسیم کے مطالبے کے بعد قصداً تقسیم نہ کرنا یا تقسیم میں رکاوٹ بننا گناہ ہے۔قرآن و حدیث میں ، صاحبِ حق کو حق نہ دینے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں  ۔

قرآن  کریم میں ورثاء کے حصے بیان کرنے کے بعد فرمایا :

{وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ} 

[النساء: 14]

ترجمہ:  اور جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور نکل جاوے اس کی حدوں سے ڈالے گا اس کو آگ میں ہمیشہ رہیگا اس میں اور اس کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔ (ترجمہ از تفسیرِ عثمانی)

صحیح بخاری میں ہے :

 "حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا عبد الله بن المبارك، حدثنا موسى بن عقبة، عن سالم، عن أبيه رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من أخذ من الأرض شيئًا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين»."

(كتاب المظالم والغصب ، باب إثم من ظلم شيئا من الأرض ، ۳/۱۳۰، صحیح البخاری، دار طوق النجاة)

ترجمہ : مسلم بن ابراہیم، عبداللہ بن مبارک، موسیٰ بن عقبہ، سالم اپنے والد ( عبداللہ بن عمر) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے کسی زمین پر ناحق قبضہ کر لیا تو اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

 "و عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة.\"

(كتاب الفرائض والوصايا ، باب الوصايا ، الفصل الثالث ، ۲/۹۲۶، مشکوۃ المصابیح، المكتب الإسلامي – بيروت)

ترجمہ: حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا ۔

لہذا صورت مسئولہ میں متروکہ مکان پر ایک  وارث کا قابض رہنا اور ورثاء کے بار بار مطالبہ کے باوجود گھر کی مالیت ورثاء میں تقسیم نہ کرنا بدترین ظلم و زیادتی ہے، اس پر لازم ہے کہ فی الفور ورثاء کو اس کے شرعی حصے ادا کرے۔ اس صورتِ حال میں ورثاء عدالت کے ذریعہ اپنے حقوق وصول کرسکتے ہیں۔

۲۔ کرایہ وصول کرنے کے لیے ماضی میں کرایہ داری کا معاہدہ ہونا لازم ہے، معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے ماضی کا کرایہ وصول نہیں کیا جاسکتا۔

۳۔ آئندہ کے لیے بالغ ورثاء اور نابالغ ورثاء کے سرپرست  اس قابض وارث سے اپنے اپنے حصوں کا کرایہ داری کا معاہدہ کرکے آئندہ کے لیے کرایہ وصول کرسکتے ہیں۔

 فتاوى هنديہ  میں ہے: 

’’(وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول بالألفاظ الموضوعة في عقد الإجارة.‘‘

 (4/ 409، رشیدیہ)

و فیہ ایضا : 

’’وأجمعوا أنه لو آجر من شريكه يجوز سواء كان مشاعا يحتمل القسمة أو لا يحتمل وسواء آجر كل نصيبه منه أو بعضه كذا في الخلاصة.‘‘

(4/ 448، رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں