بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

استاذ اپنے شاگرد کو کتنا مار سکتا ہے؟


سوال

ایک استاذ اپنے شاگرد کو کتنا مار سکتا ہے؟ دلائل کی روشنی میں  وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ ایک استاد کے لیے بچے کو بغیر کسی چھڑی یا لکڑی کے بچے کی طاقت اور تحمل کے موافق صرف تین تھپڑ تک مارنے کی اجازت ہے،اوراس میں بھی یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ چہرے یا سر وغیرہ پر نہ مارے جائیں کیوں کہ چہرے پر مارنے کی حدیث شریف میں ممانعت آتی ہے اور  اس میں نقصان کا خطرہ ہے،اگر استاد تین تھپڑوں سے یا بچے کی طاقت سے بڑھ کر اس کو تنبیہاً سرزنش کرے گا تو قیامت میں اس سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی اور حدیث شریف کے مطابق اللہ تعالیٰ بچوں کی طرف سے استاد سے بدلہ لیں گے۔

"شرح النووي على صحيح مسلم"میں ہے:

"(إذا قاتل أحدكم أخاه فليجتنب) وفي رواية إذا ضرب أحدكم وفي رواية لا يلطمن الوجه وفي رواية إذا قاتل أحدكم أخاه فليجتنب الوجه فإن الله خلق آدم على صورته قال العلماء هذا تصريح بالنهي عن ضرب الوجه لأنه لطيف يجمع المحاسن وأعضاؤه نفيسة لطيفة وأكثر الإدراك بها فقد يبطلها ضرب الوجه وقد ينقصها وقد يشوه الوجه والشين فيه فاحش لانه بارز ظاهر لا يمكن ستره ومتى ضربه لا يسلم من شين غالبا ويدخل في النهي إذا ضرب زوجته أو ولده أو عبده ضرب تأديب فليجتنب الوجه."

(ص:١٦٥،ج:١٦،كتاب البر والصلة والآداب،باب النهي عن ضرب الوجه،ط:دار إحياء التراث العربي)

"رد المحتار علی الدر المختار"میں ہے:

"(وإن وجب ضرب ابن عشر عليها بيد لا بخشبة) لحديث :مروا ‌أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر."

(قوله: بيد) أي ولا يجاوز الثلاث،وكذلك المعلم ليس له أن يجاوزها،قال عليه الصلاة والسلام لمرداس المعلم إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك،اهـ إسماعيل عن أحكام الصغار للأستروشني، وظاهره أنه لا يضرب بالعصا في غير الصلاة أيضا.(قوله: لا بخشبة) أي عصا، ومقتضى قوله بيد أن يراد بالخشبة ما هو الأعم منها ومن السوط أفاده ط."

(ص:٣٥٢،ج:١،کتاب الصلوۃ،ط:ایج ایم سعید)

’’فتاویٰ محمودیہ‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

’’چھوٹے بچوں کو بغیر چھڑی وغیرہ کے صرف ہاتھ سے وہ بھی ان کے تحمل کے موافق تین چپت تک مار سکتا ہے وہ بھی سر اور چہرہ کو چھوڑ کر یعنی گردن اور کمر پر،اس سے زیادہ کی اجازت نہیں،ورنہ بچے قیامت میں قصاص لیں گے،بچوں پر نرمی اور شفقت کی جائے،اب پیٹنے کا دور تقریباً ختم ہوگیا،اس کے اثرات اچھے نہیں ہوتے،بچے بے حیا اور نڈر ہوجاتے ہیں،مار کھانے کے عادی ہو کر یا د نہیں کرتے،بلکہ اکثر تو پڑھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔‘‘

(ص:١٢٨،ج:١٤،باب التعزير ،ط:اداره فاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102774

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں