بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک عورت کے رضاعت کے دعویٰ سے حرمت رضاعت کا ثبوت


سوال

 ہمارے گھرانے میں ایک شادی طے پائی،  مگر پھر آپسی اختلاف کے سبب کچھ دوریاں واقع ہوئیں،  یہاں تک کہ لڑکی کی نانی (جوکہ لڑکے کی خالہ ہیں) نے دعویٰ کیا کہ اس بچے کو میں نے تب دودھ پلایا تھا جب میری گود میں 22ماہ کی بچی تھی اور وہ دودھ نہ ہونے کے سبب دلیہ اور دیگر غذاؤں کا سہارا لیتی تھی،  پھر جب اس بارے میں مفتیان عظام سے رابطے ہوئے اور انہوں نے خود آکر ساس کی والدہ سے احوال دریافت کیے تو انہوں نے نکاح کے جواز کا فتویٰ دیا کہ ان کے پستان میں اس وقت دودھ موجود ہی نہیں تھا، اب جب جواز کا فتویٰ آیا اور نکاح کرچکے ایک ماہ گزر چکا تو اب لڑکے  کی ساس کی والدہ اس لڑکے کی پیدائش کے فوراً بعد دودھ پلانے کا دعویٰ کررہی  ہے جوکہ  سراسر جھوٹ پر مبنی ہے،  اب مذکورہ بالا  تمام تر صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا کیا جائے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں اگر یقینی طور پر  عورت   کے پستان میں دودھ نہ ہو  اور اس نے  اپنے   بھانجے کے منہ میں پستان ڈال دیا  اور دودھ نہیں نکلا تو اس سے حرمتِ رضاعت  ثابت نہیں ہوگی، اور اس  لڑکے  کا اپنی خالہ زاد بہن  کی بیٹی سے رشتہ حرام نہیں ہوگا۔

بعد  ازاں نکاح ہوجانے کے بعد اگر مذکورہ عورت دودھ کی  موجودگی کا دعوی کرتی ہے  اور اس پر شرعی شہادت نہیں ہے تو نکاح باطل نہیں ہوگا ، اس لیے کہ   رضاعت  ثابت ہونے کے لیے شرعًا دو عادل مرد یا ایک مرد اور دو عادل عورتوں کی  شہادت  ضروری ہے،  صرف ایک مرد یا ایک عورت ، یا ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت  سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی،اور محض شک کی بنیاد پر بھی حرمت  ثابت نہیں ہوتی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الرضاع (حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتان، لكن لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي  لتضمنها حق العبد (وهل يتوقف ثبوته على دعوى المرأة؛ الظاهر لا) لتضمنها حرمة الفرج وهي من حقوقه تعالى (كما في الشهادة بطلاقها).

(قوله: حجته إلخ) أي دليل إثباته وهذا عند الإنكار لأنه يثبت بالإقرار مع الإصرار كما مر (قوله: وهي شهادة عدلين إلخ) أي من الرجال. وأفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد امرأة كان أو رجلا قبل العقد أو بعده، وبه صرح في الكافي والنهاية تبعًا، لما في رضاع الخانية: لو شهدت به امرأة قبل النكاح فهو في سعة من تكذيبها، لكن في محرمات الخانية إن كان قيله والمخبر عدل ثقة لا يجوز النكاح، وإن بعده وهما كبيران فالأحوط التنزه وبه جزم البزازي معللا بأن الشك في الأول وقع في الجواز، وفي الثاني في البطلان والدفع أسهل من الدفع."

(3/ 224، باب  الرضاع، ط: سعید)

        البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: ويثبت بما يثبت به المال) وهو شهادة رجلين عدلين أو رجل وامرأتين عدول لأن ثبوت الحرمة لا يقبل الفصل عن زوال الملك في باب النكاح وإبطال الملك لا يثبت إلا بشهادة رجلين ... أفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد رجلًا أو امرأةً وهو بإطلاقه يتناول الإخبار قبل العقد وبعده وبه صرح في الكافي، والنهاية."

(3/232، کتاب الرضاع، ط؛ سعید)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(ويثبت به) ولو بين الحربيين بزازية (وإن قل) إن علم وصوله لجوفه من فمه أو أنفه لا غير، فلو التقم الحلمة ولم يدر أدخل اللبن في حلقه أم لا لم يحرم لأن في المانع شكًّا، ولوالجية.

(قوله: فلو التقم إلخ) تفريع على التقييد بقوله إن علم. وفي القنية: امرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بينهم ثم تقول لم يكن في ثديي لبن حين ألقمتها ثدي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية. اهـ. ط. وفي الفتح: لو أدخلت الحلمة في في الصبي وشكت في الارتضاع لا تثبت الحرمة بالشك (3 / 212)."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200511

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں