بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

ایک عمرہ مکمل کرنے سے پہلے دوسرے عمرے کا احرام باندھنے کا حکم


سوال

اگر حائضہ عورت طائف گئی اور اس نے احرام کی نیت بھی کر لی لیکن پاک ہونے کے بعد دوبارہ تنعیم جا کر احرام کی نیت کر کے عمرہ کیا۔

اس صورت میں کیا اس پر دم واجب آجائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں حیض کی حالت میں جو احرام باندھا گیا تھا وہ احرام درست تھا، لہذا اگر پہلا عمرہ ابھی تک مکمل نہیں کیا گیا تھا کہ دوبارہ عمرے کا احرام باندھا گیا تو عمرے کے دو احرام جمع کرنے کی وجہ سے دم لازم ہوگیا ہے، نیز دوسرے احرام کی وجہ سے دوسرے عمرے کی قضا بھی لازم ہے، جس وقت چاہے کرلے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"يجب أن يعلم بأن الجمع بين إحرامي الحج أو إحرامي العمرة بدعة ولكن إذا جمع بينهما لزمتاه عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى، وعند محمد - رحمه الله تعالى - تلزمه إحداهما إلا أنه لا بد من رفض إحداهما عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى - فإذا فرغ من الأولى في فصل الحج يقضي الثانية في العام الثاني وفي فصل العمرة يقضي الثانية في ذلك العام؛ لأن تكرار العمرة في سنة واحدة جائز بخلاف الحج...ومن فرغ من عمرته إلا التقصير فأحرم بأخرى فعليه دم لإحرامه قبل الوقت وهو دم جبر وكفارة، كذا في الهداية."

(کتاب المناسك، الباب الحادي عشر في إضافة الإحرام إلى الإحرام، ج:1، ص:254، ط:دار الفکر)

ارشاد الساری میں ہے:

"إعلم أنھم اتفقوا في وجوب الدم بسبب الجمع بین إحرامي العمرۃ.

(فلو أحرم بعمرۃ فطاف لھا شوطاً أو کله أو لم یطف شیئاً ثم أحرم بأخریٰ قبل أن یسعی للأولی لزمه رفض الثانیة ودم للرفض وقضاء المرفوض)."

(فصل:في الجمع بین العمرتین، ص:414، ط:المکتبة الإمدادیة)

معلم الحجاج میں ہے:

”دو عمروں کا احرام اکٹھا باندھایا اول ایک کا احرام باندھا ،اس کے بعد پہلے عمرہ کی سعی سے فارغ ہونے سے پیشتر دوسرے عمرہ کا احرام باندھا ، تو دونوں عمرے لازم ہو گیے۔ پہلی صورت میں غیر معین طور پر ایک ترک ہو گا اور دوسری صورت میں بعد والا اور ترک کرنے کی وجہ سے ایک دم اور متروک کی قضا لازم ہو گئی ،جس وقت چاہے کرلے ۔”

(دو عمروں کا احرام باندھنا، ص:275، ط:مکتبہ تھانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611101920

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں