ایک شخص نے اپنی زمین پر ایک ٹیوب ویل لگایا ہے۔ اب اس کے ساتھ متصل زمین دار اس کے ٹیوب ویل کے قریب اپنے لئے ٹیوب ویل لگا رہاہے ۔ اب اس پر دونوں کے درمیان تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
کیا شریعت نے ایک کنویں یا بورنگ یا ٹیوب ویل کے لیے کوئی حد مقرر کی ہے کہ اس حد کے اندر دوسرا کوئی اپنے لیے کنواں یا ٹیوب ویل نہیں لگا سکتا ؟
ایک کنویں، بورنگ، یا ٹیوب ویل کے چاروں اطراف 1080 انچ یعنی 30 گز اس کا حريم ہوتا ہے، یعنی جس شخص نے پہلے کنواں کھدوایا ہو، یا بورنگ کروائی ہو، یا ٹیوب ویل بنایا ہو، اسے شرعا حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کو 30 گز کے اندر اندر دوسرا کنواں کھدوانے، بورنگ کروانے، یا ٹیوب ویل بنانے سے منع کرے، البتہ 30 گز کے فاصلے کے بعد اگر کوئی بورنگ کرواتا ہے، یا ٹیوب ویل بناتا ہے، تو اسے روکنے کا شرعا حق پہلے شخص کو نہیں ہوتا، چاہے دوسرے ٹیوب ویل کی وجہ سے پہلے ٹیوب ویل والے کو پانی کی کمی کا سامنا ہو۔لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ بالا تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وروي عن محمد - رحمه الله تعالى - في النوادر حريم الناضح ستون ذراعا إلا أن يكون الحبل سبعين ذراعا فحينئذ يكون له الحريم بقدر الحبل حتى يتهيأ له الانتفاع بالبئر كذا في محيط السرخسي.
وإذا احتفر الرجل بئرا في مفازة بإذن الإمام فجاء رجل آخر واحتفر في حريمها بئرا كان للأول أن يسد ما احتفره الثاني وكذلك لو بنى أو زرع أو أحدث فيه شيئا للأول أن يمنعه من ذلك لملكه ذلك الموضع ... ولو أن الثاني حفر بئرا بأمر الإمام في غير حريم الأول وهي قريبة منه فذهب ماء بئر الأول وعرف أن ذهاب ذلك من حفر الثاني فلا شيء عليه كذا في المبسوط."
(كتاب إحياء الموات، الباب الأول في تفسير الموات وبيان ما يملك الإمام من التصرف في الموات، ٥ / ٣٨٨، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101502
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن