بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک تولہ سونا پر زکوۃ کے واجب ہونے کا حکم


سوال

میرے پاس ایک تولہ سونا ہے اور وہ بھی میرے استعمال میں ہے ، میں مدرسہ میں پڑھاتی ہوں،ماہانہ تین ہزار روپے مدرسہ والوں کی طرف سے تنخواہ ملتی ہے،  میرے شوہر کی تنخواہ سے گھر کا خرچہ بہ مشکل پورا ہوتا ہے ، میری یہی آمدنی یا تو بچوں کی ضروریات میں خرچ ہوجاتی ہے یا میری اپنی ادویات وغیرہ میں، میں خود شوگر کی مریضہ ہوں،  میرے پاس ایک تولہ سونا ہونے کی وجہ سے مجھ پر زکوٰۃ فرض ہے؟

1۔  کیا میں یہی زکوٰۃ کے روپے اپنے بچوں کی ضروریات میں خرچ کر سکتی ہوں؟

2۔ کیا میں یہی زکوٰۃ کے روپے اپنی دو  بہنوں کو دی سکتی ہوں؟ دونوں غیر شادی شدہ ہیں اور والدین کا انتقال ہوچکا ہے،گھر کا کفیل صرف ایک بھائی ہے جس کی ماہانہ آمدنی سے بہ مشکل گھر کا گزارہ ہو سکتا ہے۔

(3)اس ایک تولہ سونا کی وجہ سے اگر مجھ پر زکوٰۃ واجب ہے تو کیا قربانی بھی واجب ہوگی، جب کہ قربانی کے لیے میرے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ میں اس سے قربانی کر سکوں، اور اگر میں قربانی نہ کروں توکیا میں گناہ گار ہوں گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سے سائلہ کی ملکیت میں مذکورہ ایک تولہ سونا آیا ہے اس وقت اگر سائلہ صاحب نصاب تھی یعنی سائلہ کی ملکیت میں ضرورت سے زائد کچھ رقم بھی تھی اور سال کے آخر میں بھی ضرورت سے زائد کچھ رقم موجود تھی اور دونوں کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے بقدر تھی تو سائلہ صاحب نصاب بن گئی، کیوں کہ صاحب نصاب بننے کے لیے سال کے شروع اور آخر میں نصاب کا پورا ہونا شرط ہے ،تو  ایسی صورت میں  زکوٰۃ ، صدقہ فطر اور قربانی واجب ہوگی نیز قربانی کے وجوب کےلئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ  ایام اضحیہ میں بھی نصاب مکمل ہو، البتہ اگر  سائلہ کے پاس  نہ تو نصاب کے برابر(ساڑھے سات تولہ)سوناہو ، نہ ہی اس کے پاس  چاندی ، یا اتنی نقدی ہوجو دیگراموالِ زکوۃ کے ساتھ مل کر چاندی کے نصاب کو پہنچ جائےاور  سائلہ کی ماہانہ تنخواہ بھی گھر کی ضروریات میں صرف ہوجاتی ہو  توصرف ایک تولہ  سونا کی وجہ سے سائلہ پر زکوۃ لازم نہیں ہے ، اور نہ ہی قربانی واجب ہوگی ، البتہ ایام اضحیہ میں ایک تولہ سونا کے ساتھ سائلہ کی ملکیت میں اگر غیر ضروری زائد سامان ہو تو قربانی واجب ہوگی۔

الدر المختار میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام)۔۔۔۔۔۔۔ (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد."

(كتاب الزكوة :2/261 ، ط : سعید)

(فتاوی شامی میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."

(‌‌كتاب الأضحية، 312/6، ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"(وأما شروط وجوبها۔۔۔۔۔(ومنها كون المال نصابا) فلا تجب في أقل منه  ۔ ۔۔۔۔ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة."

‌‌(كتاب الزكاة ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها : 1 /  171 ، 172 ، ط : رشيديه)

سائل کے سوالات کے جوابات بالترتیب مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ صورتِ  مسئولہ میں سائلہ کا اپنی زکوٰۃ کی رقم اپنے بچوں کی ضروریات میں خرچ کرنا شرعاً جائزنہیں ہے، اگر زکاۃ کی رقم اپنے بچوں کی ضروریات میں خرچ  کردی ،تو  زکاۃ ادا نہیں ہوگی اس لیے کہ اصول و فروع کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"ولايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."

(الفتاوى الهندية،1/ 188، ط:مکتبة حقانیة)

2۔بہن اگر مستحق زکاۃ ہو تو  اس کو زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ یہ زیادہ ثواب کا باعث ہے؛ اس لیے کہ اس میں صلہ رحمی بھی ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ویجوز دفع الزکاۃ إلی من سوی الوالدین والمولودین من الأقارب ومن الإخوۃ والأخوات وغیرہم لانقطاع منافع الأملاک بینہم."

(کتاب الزکاۃ،50/2، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأفضل في الزکاۃ والفطر والنذور الصرف أولا إلی الإخوۃ والأخوات، ثم إلی أولادہم، ثم إلی الأعمام والعمات ثم إلی أولادہم ثم إلی الأخوان والخالات."

(كتاب الزكاة،فصل مايوضع في بيت المال من الزكاة،190/1،ط:رشيديه)

3۔    قربانی کی ادائیگی کے  لیے مکمل جانور لیناضروری نہیں،  بڑے جانور میں ایک حصہ لینا بھی کافی ہوتا ہے، پس جس شخص پر قربانی واجب ہو، مگر اس کے پاس ایک حصہ کرنے کے  لیے بھی نقدی نہ ہو تو اسے سونا،چاندی یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کچھ سامان فروخت کرکے قربانی کرلے یا قرض لے کر قربانی کرلے،نیز ہر صاحبِ نصاب مرد و عورت پر قربانی کرنا واجب ہے اور  صاحب نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے،

حدیث شریف میں آتا ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا."

(سنن ابن ماجه ،باب الأضاحي أ واجبة هي أم لا ؟،2/ 1044،دارإحياء الكتب العربية)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص صاحبِ حیثیت ہواور  قربانی نہ کرے تووہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے"۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100205

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں