بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک تولہ سونا اور چار بکریوں پر زکات کا حکم


سوال

 ایک بندے کی ملکیت میں ایک تولہ سونا ہے اور 4 بکریا ں ہیں کل ماليت تقریبا 4 لاکھ روپے بنتے ہیں تو اب زكات، قربانی واجب ہے یا نہیں یہ محض اس کی ہی ملک ہے ۔

جواب

صورت  مسئولہ میں    اگر بکریاں تجارت کے لیے ہو ں تو وہ مالِ تجارت شمار ہوں گی اور چوں کہ  بکریوں اور سونے کی قیمت  ساڑھے باون تولہ چاندی   کی قیمت سے زیادہ  ہے اس لیے  مالک پر  زکوٰۃ اورقربانی  واجب ہےالبتہ  اگر  بکریا ں تجارت کے لیے نہ ہو ں بلکہ دودھ  کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہوں یا دودھ بیچ دیتے ہوں مگر نقدی نہ ہو  توپھر قربانی اور زکوۃواجب نہیں ہوگی اور اگر بکریاں تجارت کے لیے نہ ہوں مگر ضرورت سےبھی زائد ہوں تو پھر صرف قربانی واجب ہوگی اورزکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين)؛ لأن الكل للتجارة وضعاً وجعلاً (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)".

 (کتاب الزکات، باب زکات المال، ج:2، ص:303، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(نصاب الغنم ضأنا أو معزا) فإنهما سواء في تكميل النصاب والأضحية والربا لا في أداء الواجب والأيمان (أربعون وفيها شاة) تعم الذكور والإناث (وفي مائة وإحدى وعشرين شاتان، وفي مائتين وواحدة ثلاث شياه، وفي أربعمائة أربع شياه) وما بينهما عفو (ثم) بعد بلوغها أربعمائة (في كل مائة شاة) إلى غير نهاية (ويؤخذ في زكاتها) أي الغنم (الثني) من الضأن والمعز (وهو ما تمت له سنة لا الجذع إلا بالقيمة) وهو ما أتى أكثرها على الظاهر. وعنه جواز الجذع من الضأن."

(کتاب الزکات، باب زکات الغنم، ج:2، ص:281، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفا، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم، وصاحب الثياب الأربعة لو ساوى الرابع نصابا غنى وثلاثة فلا، لأن أحدها للبذلة والآخر للمهنة والثالث للجمع والوفد والأعياد، والمرأة موسرة بالمعجل لو الزوج مليا وبالمؤجل لا، وبدار تسكنها مع الزوج إن قدر على الإسكان."

(کتاب الأضحیۃ، ج:6، ص:312، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144409101278

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں