بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک تولہ سونا ور ایک ہزار روپے پر زکات کا حکم / مالِ تجارت کی قیمت کس نصاب تک پہنچنے پر زکات واجب ہوگی؟


سوال

1۔اگر کسی کے پاس ایک تولہ سونا ہو اور ساتھ میں ایک ہزار روپے بھی ہوں تو اس پر زکات واجب ہے یا نہیں؟

2۔ اگر کسی کے پاس مالِ تجارت ہو اور اس مالِ تجارت کی قیمت سونے کے نصاب سے تو کم ہو لیکن چاندی کے نصاب کے اعتبار سے نصاب کے بقدر ہو تو اس مالِ تجارت پر زکات واجب ہے یا نہیں؟ یا اس کو اختیار ہے کہ خواہ سونے کے نصاب کا اعتبار کر کے زکات ادا نہ کرے یا چاندی کے نصاب کا اعتبار کر کے زکات ادا کرلے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ  اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو (نقدی یا دیگر اموالِ زکاۃ موجود نہ ہوں) تو جب تک سونا ساڑھے  سات تولہ نہ ہوجائے اس پر زکاۃ لازم نہیں ، اور اگر سونے کے ساتھ نقدی بھی موجود ہے تو سونے کی قیمت اور نقدی  ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر بنتی ہو تو ایسے  شخص پر  سال پورا ہونے پر قابلِ زکات مال کی ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہے۔

لہٰذا اگر کسی کے پاس ایک تولہ سونے کے ساتھ ایک ہزار روپے جمع ہیں   تو چوں کہ ایک تولہ سونے کی قیمت کے ساتھ ہزار روپے ملانے سے مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچ جاتی ہے اس لیے   سال گزرنے پر  کل مالیت میں سے ڈھائی فیصد زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔  نیز جتنی زکات لازم ہو، اگر اتنی نقدی پاس موجود نہ ہو تو اس سے زکات ساقط نہیں ہوگی، بلکہ سونا فروخت کر کے، یا کسی بھی طریقے سے انتظام کر کے زکات ادا کی جائے۔ ہاں  تمام زکات یکمشت  ادا کرنا لازم نہیں، بلکہ تھوڑی تھوڑی کر کے بھی ادا کی جاسکتی ہے، البتہ اس میں زیادہ تاخیر نہ کرے۔

2۔مالِ تجارت کی قیمت سونے یا چاندی میں سے جس اعتبار سے بھی نصاب کے بقدر پہنچتی ہو تو اس مالِ تجارت کی زکات ادا کرنا لازم ہے، اختیار نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين)؛ لأن الكل للتجارة وضعاً وجعلاً (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)".

(كتاب الزكاة، ‌‌باب زكاة المال، 2/ 303، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا ... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة؛ و لأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
و أما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر."

 (كتاب الزكاة، باب الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة، فصل مقدار الواجب في زكاة الذهب، 2/ 19، الناشر: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات."

(کتاب الزکاۃ،الباب الثالث،الفصل الثانی فی العروض،179/1،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں