میرے شوہر نے مجھے فون پر میسج کے ذریعہ سے لکھا کہ میں تمہیں پہلی طلاق دے رہا ہو ں ،اگلے مہینے دوسری طلاق دوں گا اور تیسرے مہینے کورٹ جاؤں گا ،لیکن ایک مہینہ پانچ دن بعد انہوں نے مجھ سے رجوع کر لیا کہ میں تمہیں دوبارہ بلانا چاہتا ہو ں، اور میسج کے زریعے سے رجوع کر لیا تھا کہ میں آپ کے ساتھ رجوع کرنا چاہتا ہوں اور آپ کو واپس بلانا چاہتا ہوں، اس کے بعد میاں بیوی والا تعلق قائم نہیں کیا گیا ہے ،کیونکہ شوہر باہر ملک میں ہی رہتےہے ،آیا مذکورہ صورت میں ایک طلاق واقع ہوئی ہے یا دو؟
وضاحت :شوہر نے کورٹ جانے کااس لیے کہا تھا ،کہ بیرون ملک کا قانون ہے کہ جب تک کورٹ کے ذریعہ سے پہلا نکاح ختم نہ کیا جائے آدمی دوسری شادی نہیں کر سکتاہے ۔
صورت مسئولہ میں شوہر کے ان الفاظ کہ ”میں تمہیں پہلی طلاق دے رہا ہوں“ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے اور صرف اس طرح کہنے سے کہ ”میں اگلے مہینےدوسری طلاق دوں گا“ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اس ایک طلاق کے بعد عدت یعنی مکمل تین ماہواریاں گزرنے سے پہلے تک شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار ہے، اگر شوہر تین ماہواری گزرنے سے پہلے رجوع کرلیتا ہےاور یہ کہتا ہے کہ میں نے رجوع کرلیا یا رجوع کرتا ہوں تو اس سے رجوع ہوجائے گا، اورآپ کا نکاح برقرار رہے گا، دوبارہ نئے سرے سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن اگر شوہر عدت گزرنے سے پہلے رجوع نہیں کرتا ہے تو نکاح ٹوٹ جائے گا۔ اس صورت میں آپ کو مزید عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ عدمِ رجوع کی صورت میں آپ اس عدت کے ختم ہوتے ہی کسی بھی جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوں گی۔ باقی شوہر کا یہ الفاظ کہنا کہ ”میں آپ کے ساتھ رجوع کرنا چاہتا ہوں اور آپ کو واپس بلانا چاہتا ہوں“، یہ رجوع کی خواہش کا اظہار تو ہے، رجوع نہیں ہے، صرف اتنا کہنے سے رجوع نہیں ہوا بلکہ رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ میں آپ سے رجوع کرتا ہوں، یہ رجوعِ قولی کہلاتا ہے،اس سے رجوع ہوجائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے :
" وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو، ثم المرسومة لاتخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة."
(کتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالكتابة، 246/3، ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا."
(كتاب الطلاق،فصل في بيان حكم الطلاق ،3/ 180،ط:بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق ،الباب السادس فی الرجعة،470/1،ط:دارالفکر)
العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام."
(كتاب الطلاق ج:1،ص:38،ط:دار المعرفة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144602101655
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن