بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کا حکم / نابالغ نواسیوں کو سونا ہبہ کرنے کا طریقہ


سوال

1: ایک خاتون جن کی عمر تقریباً ۷۵ سال ہے، ان کو ۳۰ سال پہلے طلاق ہو گئی تھی، ان کی ایک بیٹی ہے، اور ایک بڑی بہن حیات ہیں، ان کے والدین اور باقی سب بہنیں انتقال کر چکی ہیں، اور کوئی بھائی نہیں ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ  ان خاتون کی وفات کے بعد ان کی جائیداد کس طرح تقسیم ہو گی؟بیٹی اور بہن کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟ جو بہنیں وفات پا چکی ہیں کیا ان کے بچوں کا حصہ بھی بنتا ہے؟ اگر ہاں، تو ان کےبچوں کا کتنا حصہ بنے گا؟اگر ان کی بڑی بہن ان سے پہلے وفات پا جائیں اور لواحقین میں صرف ایک بیٹی رہ جاۓ، تو اس صورت میں جائیداد کی تقسیم کس طرح ہو گی؟

2:کیا یہ خاتون کسی فلاحی ادارے کےلیے ایک تہائی سے زیادہ ترکہ کی وصیت کر سکتی ہیں؟

3:خاتون اپنا سارا زیور اپنی زندگی میں ہی اپنی تینوں نابالغ نواسیوں میں بانٹ دینا چاہتی ہیں، ایسی صورت میں اس زیور کی زکوٰۃ دینی ہو گی یا نہیں ؟ اگر ہاں، تو یہ زکوٰۃ کون دے گا؟

جواب

1:بصورتِ مسئولہ کسی خاتون  کی زندگی میں ان کی میراث کے متعلق سوال کاجواب دیناقبل از وقت ہوگا؛ کیوں کہ یہ بات قطعاً نامعلوم ہے کہ خاتون کا انتقال پہلے ہوگا یاان کےممکنہ ورثاء(بیٹی،بہن) وغیرہ کا؟؛اس لیے وراثت کے متعلق سوالات متعلقہ شخص کی وفات کے بعد ہی کیے جائیں، تاہم اگرکوئی خاتون مرجائے اور اس کے ورثا میں صرف بہن اور بیٹی ہو ، شوہر، بیٹا، پوتا، والد، دادا، بھائی، بھتیجا، چچا، چچا زاد بھائی وغیرہ کوئی رشتہ دار نہ ہو تو اس کی میراث بہن اور بیٹی میں تقسیم ہوتی ہے، بیٹی کو آدھا حصہ اور بہن کو آدھا حصہ ملتا ہے۔ 

2: موت کے بعد اپناایک تہائی سے زیادہ مال کسی فلاحی ادارے کو دینے کی وصیت کرناورثاء کے حق کی وجہ سے جائز نہیں ہےاور ایسی وصیت  ورثاء کی رضامندی کے بغیر قابلِ نفاذ اور قابلِ عمل نہیں  ہوتی،تاہم اگر ان کی وفات کے بعد ان کے اُس وقت موجود  عاقل بالغ ورثاء  اس کی اجازت دے دیں توایک تہائی سے زیادہ کی مذکورہ وصیت نافذ ہوجائے گی۔

3:خاتون اگر مرض الموت کی حالت میں نہیں ہیں،تو انہیں اپنے مال میں فی الوقت ہرطرح کاتصرف کرنے کااختیارحاصل ہے،تاہم ورثاء کو بالکلیہ محروم کرنامناسب نہیں ہے؛ لہٰذا اگر مذکورہ خاتون کے پاس کچھ اور مال وجائیداد بھی ہے،تو ان کےلیے اپناسونااپنی نابالغ نواسیوں کو ہبہ کرناجائز ہوگا،ہبہ کاطریقہ یہ ہے کہ اس سونے کوبرابرتین حصوں میں تقسیم اور متعین کرکے یہ کہہ دیں کہ یہ سونامیں اپنی نواسیوں کو دے دیتی ہوں،اورہبہ کرنے کے بعد وہ سوناان بچیوں کے ولی یعنی ان کے والد کے قبضے میں دے دیں،ایساکرنے سے نواسیاں اس کی مالک ہوجائیں گی،اورنواسیوں کے بالغ ہونے تک اس سونے کی زکاۃ لازم نہ ہوگی،نواسیوں کی بلوغت کے بعد انہی پر اپنے اپنے سونے کی زکاۃ ٗ شرائطِ زکاۃ کی موجودگی میں لازم ہوگی۔

بدائع الصنائعمیں ہے:

"(ومنها) التقدير بثلث المال إذا كان هناك وارث، ولم يجز الزيادة، فلا تجوز الزيادة على الثلث إلا بإجازة الوارث الذي هو من أهل الإجازة، والأصل في اعتبار هذا الشرط ما روينا من حديث سعد رضي الله عنه أنه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أوصي بجميع مالي؟ فقال: لا، فقال: فبثلثيه؟ فقال: لا، فقال: فبنصفه؟ قال عليه الصلاة والسلام: لا، قال: فبثلثه؟ فقال عليه الصلاة والسلام: الثلث، والثلث كثير إنك إن تدع ورثتك أغنياء خير لك من أن تدعهم عالة يتكففون الناس، وقوله عليه الصلاة والسلام: إن الله تبارك وتعالى تصدق عليكم بثلث أموالكم آخر أعماركم زيادة في أعمالكم؛ ولأن ‌الوصية ‌بالمال ‌إيجاب الملك عند الموت، وعند الموت حق الورثة متعلق بماله إلا في قدر الثلث، فالوصية بالزيادة على الثلث تتضمن إبطال حقهم، وذلك لا يجوز من غير إجازتهم، وسواء كانت وصيته في المرض، أو في الصحة؛ لأن الوصية إيجاب مضاف إلى زمان الموت فيعتبر وقت الموت لا وقت وجود الكلام."

(ص:٣٦٩،ج:٧،کتاب الوصایا،الشرط الذي يرجع إلى الموصى به،ط:دار الكتب العلمية)

الفتاوي الهنديةمیں ہے:

"وهبة الأب لطفله تتم بالعقد ولا فرق في ذلك بينما إذا كان في يده أو في يد مودعه بخلاف ما إذا كان في يد الغاصب أو في يد المرتهن أو في يد المستأجر حيث لا تجوز الهبة لعدم قبضه، وكذا لو وهبته أمه وهو في يدها والأب ميت وليس له وصي، وكذا كل من يعوله، كذا في التبيين وهكذا في الكافي."

(ص:٣٩١،ج:٤،کتاب الهبة،الباب السادس في الهبة للصغير،ط:دار الفكر،بيروت)

وفيه أيضا:

"وعصبة مع غيره وهي كل أنثى تصير عصبة مع أنثى أخرى كالأخوات لأب وأم أو لأب يصرن عصبة ‌مع ‌البنات أو بنات الابن، هكذا في محيط السرخسي مثاله بنت وأخت لأبوين وأخ أو إخوة لأب فالنصف للبنت والنصف الثاني للأخت ولا شيء للإخوة."

(ص:٤٥١،ج:٦،كتاب الفرائض، الباب الثالث في العصبات، ط: دار الفكر،بيروت)

حاشية ابن عابدينمیں ہے:

"(وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية) والعلم به ولو حكما ككونه في دارنا.
(قوله عقل وبلوغ) فلا تجب على مجنون وصبي لأنها عبادة محضة وليسا مخاطبين بها، وإيجاب النفقات والغرامات لكونها من حقوق العباد والعشر، وصدقة الفطر لأن فيهما معنى المؤنة."

(ص:٢٥٨،ج:٢،کتاب الزکاۃ،ط:ایج ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں