میری اہلیہ نے میری مرضی کے خلاف عدالت سے خلع لیا، جو کے یک طرفہ ایک خاتون جج نے دیا، میں نہ تو کسی پیشی پر حاضر ہوا نہ ہی میں نے زبان سے یا تحریری طور پر اپنی اہلیہ کو طلاق یا خلع دی نہ ہی خلع نامے پر دستخط کیے، میں اس خلع پر اب تک راضی نہیں ہوں ،خلع کی ڈگری ملتے ہی میری اہلیہ نے عدت گذارتے ساتھ ہی اپنے پہلے سے شادی شدہ کزن سے کورٹ میرج کر لی اور اب اس کی دوسری بیوی بن کر رہ رہی ہیں ،.مجھے اس بات کا یقین ہے کے ان دونوں کے درمیان تعلقات قائم ہو گئے تھے،میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے پاس موجود 3 طلاقوں میں سے کسی طلاق کو استعمال نہیں کیا اور اس وقت بھی میرے پاس 3 طلاقوں کا حق محفوظ ہے۔
مقصد : اگر بیان کردہ صورت میں یک طرفہ عدالتی خلع شرعی طور پر واقع ہو گیا ہے تو میرے پاس شریعت کے خلاف لب کشائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اگر خلع واقع نہیں ہوا ہے تو میرا ارادہ ہے کہ میں اپنی اہلیہ کو ایک طلاق خلع دے کر اپنے نکاح سے علیحدہ کر دوں تا کہ نہ میں گناہگار ہوں نہ وہ۔
وضاحت: بیان کردہ یک طرفہ عدالتی خلع کسی طور پر بھی اس سنّت خلع کے جیسا نہیں ہے جو آنحضرت محمّد صلّی الله علیہ وسلم نے صحابیہ حضرت جمیلہ زوجہ حضرت قیس بن ثابت رضی الله عنہہ کا فرمایا تھا جس میں حضرت جمیلہ اس بات پر راضی ہو گئی تھیں کہ وہ اپنے شوہر کا مہر میں دیا ہوا باغ انہیں واپس لوٹائیں گی اور حضرت قیس بن ثابت اس بات پر راضی ہو گئے تھے کہ اگر ان کی اہلیہ ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں تو وہ انھیں چھوڑ دیں گے،. جب یہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو چھوڑنے پر راضی ہو گئے تو آپ صلّی الله علیہ وسلم نے حضرت قیس بن ثابت سے فرمایا کہ اب تم ان کو طلاق دو اور آپ نے اپنے سامنے حضرت قیس بن ثابت سے ان کی زبان سے ان کی اہلیہ کو طلاق دلوائی ا ور خلع کو مکمّل فرمایا ۔
فسخ نکاح : اس کیس میں فسخ نکاح کی کوئی صورت مثلاً: شوہر کا نامرد ہونا، لاپتہ ہو جانا ،مار پیٹ اور ظلم کرنا، نان نفقہ نہ دینا، مجنوں ہو جانا، کسی ایسی بیماری مثلاً: ایڈز وغیرہ میں مبتلا ہو جانا جو بیوی کو بھی لگ سکتی ہو یا شوہر کا بیوی کو مذہب بدلنے کا کہنا وغیرہ قطعاً نہیں پائی جاتی تھیں اور یہ کیس میری اہلیہ نے خالص خلع حاصل کرنے کے لیے دائر کیا تھا۔
سوال : کیا بیان کردہ صورت میں یک طرفہ عدالتی خلع شر عی طور پر واقع ہو گیا ہے؟ اگر نہیں تو برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں کہ مجھے اپنے آپ کو اور اپنی اہلیہ کو گناہ سے بچانے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
واضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات کے درست اور معتبر ہونے کے لیے عاقدین کی رضامندی شرعاً ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع کے درست اور معتبرہونےکے لیے بھی جانبین (زوجین)کی رضامندی ضروری ہے اور شوہر کی رضامندی کے بغیر یک طرفہ خلع شرعاً معتبر نہیں؛ اگر چہ وہ یک طرفہ عدالتی خلع کیوں نہ ہو ۔
مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں سوال میں ذکر کردہ تفصیل سے واضح ہوا کہ زیر نظر عدالتی خلع میں شوہر کی رضامندی نہیں پائی گئی شوہر یا اس کا وکیل سرے سے عدالت میں حاضر ہی نہیں ہوا؛ لہذا مذکورہ یک طرفہ عدالتی خلع شرعا ًمعتبر نہیں نکاح بدستور قائم اور برقرار ہے، ہاں اگر شوہر اس عدالتی خلع کے فیصلے کو تحریری یا زبانی طور پر قبول کر لے تو خلع معتبر اور درست ہو جائے گا ،جس کے بعد عدت گزار کر عورت کےلیے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا اور جب تک شوہر طلاق نہ دے یا اس خلع پہ راضی نہ ہو اس وقت تک بیوی کےلیے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں تھا اور اب چوں کہ اس نے نکاح کرلیا ہے تو فوراً بیوی پر لازم ہے کہ وہ اپنے کزن سے علیحدگی اختیار کرلیں اور جتنا عرصہ ساتھ رہے اس پر توبہ واستغفار کرے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده."
(کتاب الطلاق،باب الخلع،ج:3،ص:440،،ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے :
"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق،فصل فی شرائط رکن الطلاق ج:3،ص:145 ،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100041
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن