اگر کسی کی داڑھی صرف ایک جانب سے نکلے اور دوسری طرف سے نہ نکلےتو کیا اس وجہ سے چہرے سے ایک طرف والے بال صاف کرسکتے ہیں ؟
واضح رہے کہ داڑھی منڈوانا، کتروانا اور ایک مشت سے کم کرنا گناہ ہے، جو شخص داڑھی ایک مشت سے کم کرے، خواہ داڑھی کے ایک جانب اُگنے اور دوسری جانب نہ ہونے کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو ، ایسا شخص داڑھی رکھنے کے شرعی حکم کی خلاف کرنے والا شمار ہوگا اور گناہ گار ہوگا؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں داڑھی کےہر طرف سے برابر نہ اگنے یا ایک طرف آنے اور دوسری طرف نہ آنے کی وجہ سے داڑھی صاف کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ کانوں کے پاس جہاں سے جبڑے کی ہڈی شروع ہوتی ہے، یہاں سے داڑھی کی ابتدا ہےاور پورا جبڑا داڑھی کی حد ہے،اس حد میں جو بال آئیں انہیں نہ توصاف کیا جائے اور نہ ہی انہیں ایک مٹھی کی مقدار سے کم کیا جائے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما فعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد، و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم
مطلب في الأخذ من اللحية (قوله: وأما الأخذ منها إلخ) بهذا وفق في الفتح بين ما مر وبين ما في الصحيحين عن ابن عمر عنه - صلى الله عليه وسلم - «أحفوا الشوارب واعفوا اللحية» قال: لأنه صح عن ابن عمر راوي هذا الحديث أنه كان يأخذ الفاضل عن القبضة، فإن لم يحمل على النسخ كما هو أصلنا في عمل الراوي على خلاف مرويه مع أنه روي عن غير الراوي وعن النبي - صلى الله عليه وسلم - يحمل الإعفاء على إعفائها عن أن يأخذ غالبها أو كلها كما هو فعل مجوس الأعاجم من حلق لحاهم، ويؤيده ما في مسلم عن أبي هريرة عنه - صلى الله عليه وسلم - «جزوا الشوارب واعفوا اللحى خالفوا المجوس» فهذه الجملة واقعة موقع التعليل، وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد اهـ ملخصا."
(كتاب الصوم، باب مالايفسد الصوم، ج:2، ص:418، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144411102361
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن