بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک طلاق میں اتفاق اور دوسری دو میں میاں بیوی کا اختلاف


سوال

1۔میرے  شوہر نے مجھے  لڑائی کے دوران ایک مرتبہ  ان الفاظ میں طلاق دی کہ"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" پھر ایک ہفتہ کے اندر اندر میاں بیوی والے تعلقات بحال ہوگئے تھے،کچھ عرصہ بعد دوبارہ لڑائی ہوئی تو اس نے  اپنی ماں کے سامنے مجھے دو طلاقیں دیں،جو میں نے دوسرے کمرے میں سنی ، اس کے الفاظ یہ تھے"میں نے اس کو طلاق دی ہے، اسے گھر بھیج دو"، مگر اب وہ بھی مکر رہا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی اور اس کے ساتھ اس کے گھر والے بھی جھوٹ بول رہے ہیں،جب کہ مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا، وہ مجھے طلاق دے چکا ہے، شریعت کی روشنی میں جواب دیں کہ طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

2۔نیز وہ مجھ سے میری بیٹی بھی مانگ رہے ہیں ،جو کہ ایک سال کی  دودھ پیتی بچی ہے،میں اپنی بیٹی ان کو دینا نہیں چاہتی،کیوں کہ میرا شوہر  نشہ کرتا ہے، کچھ کماتانہیں ہے،بچی کو میں دودھ پلاتی ہوں،تو اس کا حکم بھی بتائیں کہ بیٹی پر کس کا حق ہے؟

 

جواب

1۔صورت مسئولہ میں سائلہ اور اس کے شوہر کے بیان  میں تضاد ہے، سائلہ دعوی کرتی ہے کہ شوہر نے مجھے  تین طلاقیں  دی ہیں، جب کہ شوہر  اس کاانکار کرتاہے ، لہٰذا   میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ وہ  اس سلسلے میں  کسی مستند مفتی کو فیصل مقرر کریں جو ان کے درمیان شرعی فیصلہ کرے، پھر وہ جو فیصلہ کرے میاں بیوی اس کے مطابق عمل کریں۔

2۔نو سال کی عمر تک بچی کی پرورش کا حق    ماں(سائلہ) کو حاصل ہے، (خرچہ باپ ادا کرے گا) اس کے بعد والد پرورش کرے گا،البتہ نو  سال سے پہلے ہی اگر والدہ نے  کسی ایسے شخص سے شادی کرلی  جو بچی کے حق میں اجنبی ہو تو ماں کا حق پرورش ختم ہوجائے گا اور یہ حق بچے کی نانی،دادی،خالہ اور پھوپھی کو بالترتیب حاصل ہوگا۔

الدر مع الرد میں ہے:

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح۔۔۔ولو قيل له: طلقت امرأتك فقال: نعم أو بلى بالهجاء طلقت بحر (واحدة رجعية،)"

                            (کتاب الطلاق ،باب الصریح،ج3 ص247 ط:سعید)

وفیہ ایضا: 

"والأم والجدة أحق بہا أي بالصغیرة حتی أي تبلغ ․․․ وغیرہما أحق بہا حتی تشتہي وقدر بتسع وبہ یفتی․․․ وعن محمد أن الحکم في الأم والجدة کذالک وبہ یفتی لکثرة الفساد․"                

(كتاب النكاح،باب العدة،ج3،ص566،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے: 

" ومنها أن لا تكون ذات زوج أجنبي من الصغير فإن كانت فلا حق لها في الحضانة، وأصله ما روى عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن امرأة أتت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقالت: يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وحجري له حواء وثديي له سقاء ويزعم أبوه أن ينزعه مني فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «أنت أحق به منه ما لم تنكحي» ."

 (كتاب الحضانة،فصل فی وقت الحضانة،ج4،ص42،ط:سعید)

هنديه میں ہے:  

"‌ويصح ‌التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد ولا يصح فيما لا يملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة، ولا يجوز في حد الزنا والسرقة والقذف."

(كتاب ادب القاضي،الباب الرابع والعشرون في التحكيم،ج3،ص397،ط:ماجديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100686

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں