بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک طلاق کے بعد دوسری جگہ نکاح کا حکم


سوال

میری بہن کے شوہر نے اس کو صرف ایک طلاق دی ہے،تین طلاقیں نہیں دیں،اور اس بارے میں تین سال سے کوئی رابطہ نہیں کیا،تو اس بارے میں مجھے فتوی چاہیے کہ میری بہن  کو طلاق ہوچکی ہے ؟اورکیا میری بہن دوسرا نکاح کرسکتی ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرسائل کی بہن کے شوہر نے  ایک  طلاق رجعی دی ہو ،اس کے بعد سائل کی بہن کے شوہر نے اگر  عدت (مکمل تین ماہواریاں  بشرط یہ کہ حاملہ نہ ہو) کے اندر رجوع کرلیا تھا،تو ان کا  نکاح برقرار  ہے اور سائل کی بہن دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی، البتہ اگر  عدت کے اندر رجوع نہ کیا ہو،تو عدت ختم ہوتے ہی نکاح ختم ہوگیا،اور سائل کی بہن دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے، نیزدوبارہ  سابقہ شوہر  کے ساتھ رہنے کے لیے نئے سرے سے  دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا پڑے گا۔

اور  اگرسائل کی بہن کے شوہر نے  کسی ایسے لفظ سے ایک طلاق دی ہو جس لفظ سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہو، تو طلاقِ بائن واقع ہونے کی وجہ سے طلاق دینے کے وقت سے ہی نکاح ٹوٹ جائے گا اورشوہر کے لیے  عدت کے اندر رجوع کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی،نیز عدت گزار کر سائل کی بہن دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعة،ج:1،ص:470،ط:دار الفکر) 

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت."

(کتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق، ج:3،ص:120،ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا كان الطلاق بائناً دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها."

 (كتاب الطلاق،  الباب السادس ج:1، ص: 473، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) أي عدة الدخول حقيقة ،إذ لا رجعة في عدة الخلوة ابن كمال، وفي البزازية: ادعى الوطء بعد الدخول وأنكرت فله الرجعة لا في عكسه.وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطإ (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة."

(کتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:3، ص:397، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں