بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک طلاق کی عدت کے بعد دوبارہ نکاح کرنا


سوال

میں  نے اپنی  بیوی کو مؤرخہ8-6-2020کو طلاق نامہ بھیجا ،جس میں  ایک طلاق لکھی گئی تھی ، اور جس وقت میں نے طلاق نامہ بھیجا اس وقت میری بیوی حاملہ تھی ۔آج تقریبا اس بات کو دو سال ہوگئے ہیں  اور دو سالوں میں  میں نے رجوع بھی نہیں کیا  ، میرے سسرال والوں نے اپنے  علاقہ کے یو سی کونسل سے  طلاق کا سرٹیفکیٹ بھی نکلوایا ہے ۔ میں نے اپنے طلاق نامہ میں ایک طلاق کا اندراج کیا تھا ۔ اب پوچھنا  یہ ہے کہ  ہم میاں بیوی  دوبارہ  ساتھ رہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعتًا  سائل  نے طلاق نامہ میں ایک طلاق کا اندراج کروایاتھا  اور منسلکہ طلاق نامہ میں یہ جملہ کہ  "میں  ۔۔۔ ولد  ۔۔۔ اپنی زوجہ  مسماۃ  ۔۔۔ بنت   ۔۔۔ کو  رو برو  گواہان ایک طلاق دیتا ہوں " ما قبل والے طلاق  کے جملے کی وضاحت اور  تفسیر کے طور پر لکھا گیا تھا تو  سائل کی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی تھی اور  عدت کے دوران رجوع  نہ ہونے کی وجہ سے   نکاح ختم ہوگیا تھا ۔اب اگر سائل دوبارہ  اپنی مطلقہ  سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو  باہمی رضامندی سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے  ساتھ  نکاح ہوسکتا ہے ،البتہ  تجدید نکاح کے بعد آئندہ کے لیے  سائل کو صرف دو طلاقوں  کا حق ہوگا۔

وفي بدائع الصنائع:

"فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، و الثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، و زوال الملك أيضًا حتى لايحل له وطؤها إلا بنكاح جديد."

(كتابالطلاق: فصل في حكم الطلاق البائن/3/187ط: دار الكتب العلمیة)

وفی طريقة الخلاف في الفقه بين الأئمة الأسلاف:

"و لكن القاطع للنكاح و هو الطلاق الثلاث يوجب انقطاع النكاح من كل وجه."

(كتاب النكاح ، مسألة: نكاح الأخت ط: مكتبہ دار التراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100532

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں