بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک طلاق کے بعد عورت کا دوسری جگہ شادی کرنا اور بچی کی پرورش کا حکم


سوال

میری بیوی اور میرے درمیان علیحدگی ہو گئی تھی، میں نے ایک طلاق دی تھی میری رہائش دبئی  میں ہے ،اس نے پاکستان آکر عدالت سے خلع لے لی ہے، اور شادی کر لی ہے، کیا طلاق ہو گئی ہے؟ 7سال کی بچی میرے پاس ہے کیا ماں بچی کو لے سکتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  آپ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی اگر اس کے بعد عدت( جو حمل نہ ہونے کی صورت میں تین ماہواریاں ہیں)کے دوران رجوع نہیں کیاتھاتو عدت مکمل ہونے پر آپ کا نکاح ختم ہو گیا تھا اور عورت کودوسری جگہ شادی کرنے کی شرعاً اجازت تھی ، اگر اس نے قانونی ضرورت پوری کرنے کے لیے عدالت سے خلع کی ڈگری حاصل کر کے دوسری جگہ شادی کرلی ہے تو یہ شادی درست ہوگئی ہے ، البتہ اگر عدت کے دوران رجوع ہوگیا ہو یا ابھی عدت کی مدت باقی ہو تو اس دوران کیا جانے والانکاح درست نہیں ہے۔

نیزمیاں بیوی میں علیحدگی کے بعد بیٹی کی پرورش کا حق  نو سال تک اس کی ماں  کو ہے اور اس دوران اس بچی کا خرچہ آپ  کے ذمہ ہے، اور نو سال کی عمر  کے بعد آپ  کواپنی پرورش میں  لینے کا اختیار ہو گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول".

(كتاب الطلاق، فصل وأما الذي يرجع إلى المرأة، ج:3، ص:145، ط: دار الكتاب العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

 "(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبراً وإلا لا، (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع، وبه يفتى".

(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3، ص: 566، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب النکاح، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج: 1، ص: 560، ط:  رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101495

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں