1)اگر مرد اپنی بیوی کو تحریری یا بول کر ایک طلاق دیدے اور عدت کے دوران رجوع نہ کرے تو کیا اس سے طلاق واقع ہو جائے گی ؟
2)کیا اس ایک طلاق واقع ہونے کے بعد عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے یا نہیں ؟
3)کیا اپنے پہلے شوہر سے اگر چاہے تو نکاح کرسکتی ہےحلالہ کیے بغیر؟
4)کیا اس ایک طلاق کے بعد دوسری یا تیسری طلاق دینے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ بیوی کو زبانی یا تحریری طور پر صریح الفاظ سےایک طلاق دینے سے شرعا ایک طلاق رجعی واقع ہو جاتی ہے ،اور ایک طلاق رجعی کا حکم یہ ہےکہ شوہر دوران عدت(پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہواگر حمل ہوتو بچہ کی پیدائش تک)بغیر نکاح کے رجوع کا حق حاصل ہوتاہےاور عدت کے بعدنئے مہرکے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا لازمی ہے،لیکن ایک طلاق رجعی کےبعداگر شوہرنے عدت کےدوران رجوع نہیں کیا تو عدت کے مکمل ہونے پر نکاح ختم ہوجائےگااور بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے لیے آزاد ہوگی ۔
تین سے کم طلاقوں کی صورت میں اگر شوہر نےدوران عدت رجوع نہیں کیاتوعدت کے مکمل ہونے پر نکاح ختم ہوجائےگا،البتہ عدت مکمل ہونے کے بعدباہمی رضامندی سے عورت اسی سابقہ شوہرسے بھی نکاح کرسکتی ہےاور سابقہ شوہرکے علاوہ سے بھی،ایک طلاق رجعی کے بعدشوہرکو دوران عدت تک دوسری اور تیسری طلاق دینے کا اختیار حاصل رہتاہے،مگر عدت مکمل ہونے پر چونکہ نکاح ختم ہوجا تاہےلہذا شوہرکے طلاق دینے کااختیار بھی ختم ہوجاتا ہے اور مزید طلاق دینے کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية۔"
(کتاب الطلاق ،الباب السادس فی الرجعۃ ج1ص470ط:رشیدیہ)
وفیہ ایضاً:
"وتنقطع الرجعة إن حكم بخروجها من الحيضة الثالثة إن كانت حرة۔"
(کتاب الطلاق ،الباب السادس فی الرجعۃ ج1ص471ط:رشیدیہ)
وفیہ ایضاً:
"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها۔"
(کتاب الطلاق ،الباب السادس فی الرجعۃ ج1ص472ط:رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100898
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن