بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک طلاق کے بعد عدالتی خلع


سوال

میں نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی، چوں کہ یہ غصے میں ہوا اور ممکنہ منفی ردِ عمل سے بچنے کے  لیے بیوی اور بچوں کو میکے بھیج دیا اور یہ طے ہوا  کہ ایک سے دو ہفتے بعد واپس آجائے گی ، مگر وہ عدالت چلی گئی اور خلع لے لی،  اس دوران میں اپنی بیوی کو واپسی  کے لیے پیغامات بھجواتا رہا، اب تقریبًا  ڈیرھ سال گزر چکا، میں اس کو واپس لانا چاہتا ہوں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کے اپنی بیوی سے نکاح برقرار رہنے یا ختم ہونے، اور رجوع کا حق باقی رہنے یا ختم ہونے، نیز آئندہ کتنی طلاقوں کا حق باقی ہے، ان اعتبارات سے مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، جن کا حکم درج ذیل ہے:

1- ایک طلاق دینے کے بعد سائل نے اگر عدت مکمل ہونے سے پہلے پہلے عملی یا قولی رجوع کرلیا تھا اور اس پر گواہ بھی موجود ہوں، تو ایسی صورت میں مذکورہ خاتون سائل کے نکاح میں برقرار  رہے گی، بشرطیکہ   سائل نے عدالتی خلع  قبول نہ کیا ہو۔ اور  اس صورت میں سائل کے پاس آئندہ دو طلاقوں کا حق باقی ہوگا۔

2- اگر سائل نے  عدت کے دوران قولی یا عملی رجوع نہیں کیا، اور خلع پر بھی رضامندی ظاہر نہیں کی  یا عدت گزرنے کے بعد خلع پر رضامندی ظاہر کی تو اس صورت میں عدت مکمل ہوتے ہی سائل کی منکوحہ اس کے نکاح سے  شرعًا آزاد ہوچکی ہے،  نیز اس صورت میں  باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح  کی اجازت ہوگی، اور تجدیدِ نکاح کے بعد آئندہ سائل کو دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔ اور اگر سائل کی منکوحہ کہیں اور نکاح کرنا چاہتی ہے تو وہ اپنے فیصلے میں آزاد ہوگی۔

3- اگر عدت کے دوران قولی یا عملی رجوع بھی نہیں کیا  اور  عدالتی خلع کو  بھی قبول کرلیا تو سائل کی منکوحہ پر دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اور خلع کی وجہ سے سائل کی منکوحہ اس کے نکاح سے آزاد ہوچکی ہے،  اب عدت کے دوران سائل کو رجوع کا بھی حق نہیں ہوگا، البتہ عدت کے دوران یا عدت کے بعد باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کی اجازت ہوگی، اور  اس صورت میں آئندہ صرف ایک طلاق کا حق باقی ہوگا۔

4-  اگر  عدت کے دوران رجوع کرلیا تھا، اور  اس کے بعد  مذکورہ خاتون نے عدالت کے ذریعہ خلع حاصل کیا ہو، اور   سائل کی جانب سے عدت کے دوران ہی اس فیصلے کو تسلیم بھی کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں بھی وہ اس کے نکاح سے آزاد شمار ہوگی، تاہم باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح جائز  ہوگا، اور آئندہ کے لیے سائل کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

نوٹ: رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ میں آپ سے رجوع کرتا ہوں، یہ رجوعِ قولی کہلاتا ہے، یا شوہر بیوی کے ساتھ زوجین والے تعلقات قائم کرلے ، یہ رجوع فعلی کہلاتا ہے، بہتر یہ ہے کہ قولی رجوع کرکے اس پر گواہ مقرر کرلیے جائیں، اور  رجوعِ  فعلی کرنے کو  (یعنی زبان سے رجوع کیے بغیر، میاں بیوی کا تعلق قائم کرنے کو) فقہاء نے مکروہ   قرار  دیا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) و رددتك و مسكتك بلا نية؛ لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل ... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله: و الطلاق الرجعي لايحرم الوطء، رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201113

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں