تین سال قبل میرا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا، میں نے کہا: " میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"
دوسری مرتبہ جملہ شروع کیا: "میں تمہیں..." میرا پڑوسی میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر باہر لے گیا، اس مرتبہ "میں تمہیں" سے زیادہ کچھ نہیں بولا، اس کے بعد بیوی میکے چلی گئی، میں نے اپنی والدہ کو فون کیا، اور کہا: میں نے اس کو طلاق دے دی، اس جملہ سے مقصود طلاق کی خبر دینا تھا، الگ سے طلاق دینا مقصود نہیں تھا، اس کے دوسرے دن بیوی گھر آ گئی، ہم نے رجوع کر لیا، اس واقعہ کی خبر جب ہمارے بہنوئی کو ہوئی تو اس نے خاندان میں کہا: جو ان سے تعلق رکھے گا ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہو گا، اس کی وجہ سے میں کسی رشتہ دار کے گھر نہیں جا سکتا، اس بہنوئی کا یہ عمل شرعاً کیسا ہے؟اور میری بیوی کو کتنی طلاق واقع ہوئی ہے؟
واضح رہے کہ مفتی غیب کا علم نہیں جانتا، وہ صرف سوال کا جواب دیتا ہے، جیسا سوال لکھا جائے گا مفتی اسی کے مطابق جواب دے گا، اگر حقیقت برخلاف ہو تو اس کا وبال سوال پوچھنے والے پر ہی ہو گا، بہرحال! صورتِ مسئولہ میں سوال میں درج تفصیل اگر واقعۃً حقیقت کے مطابق ہے کہ سائل نے اپنی بیوی کو طلاق کا جملہ صرف ایک دفعہ استعمال کیا اور پھر دوسری مرتبہ طلاق کاجملہ منہ پر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے استعمال نہیں کیا، جبکہ والد کو جو فون پر کہا کہ میں نے اس کو طلاق دے دی وہ پہلی طلاق کی خبر مقصود تھی، نئی طلاق نہ تھی تو پھر سائل کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوئی تھی، اس کے بعد اگلے دن رجوع کرنے سے رجوع درست ہو گیا تھا، میاں بیوی کا ساتھ رہنا جائز تھا اور بہنوئی کا مذکورہ طرزِ عمل درست نہیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةً أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، كذا في الهداية."
( كتاب الطلاق ، الباب السادس في الرجعة ، جلد : 1 ، صفحه : 470 ، طبع : دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101409
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن