بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک طلاق کے بعد دوران عدت دوسری طلاق دینا


سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی پھر وہ دوران عدت دوسری طلاق دے سکتا ہے  کیا؟ مہربانی کرکے مع دلائل جواب فرمائیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں دورانِ عدت اگر کوئی اپنی بیوی کو دوسری طلاق دینا چاہے تو دے سکتا ہے،لیکن بہتر یہی ہے کہ مزید طلاق نہ دی جائے کیوں کہ طلاق دینے کابہترطریقہ یہ ہے کہ عورت کوپاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے،ایک طلاق کے بعد عدت کے اندراگرچاہیں تورجوع کرلیں اور رجوع نہ کرناچاہیں تو عدت گزرنے کے بعد عورت آزادہوگی،وہ کسی اورسے نکاح کرناچاہے تو درست ہوگا۔ اس کو شریعت میں" طلاق احسن" کہتے ہیں۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فِي الحَيْضِ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مره فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلًا»: «حَدِيثُ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَكَذَلِكَ حَدِيثُ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: أَنَّ طَلَاقَ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا وَهِيَ طَاهِرٌ فَإِنَّهُ يَكُونُ لِلسُّنَّةِ أَيْضًا، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَكُونُ ثَلَاثًا لِلسُّنَّةِ إِلَّا أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً وَاحِدَةً، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَإِسْحَاقَ وَقَالُوا فِي طَلَاقِ الحَامِلِ: يُطَلِّقُهَا مَتَى شَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُطَلِّقُهَا عِنْدَ كُلِّ شَهْرٍ تَطْلِيقَةً ".

(الجامع السنن للترمذي، ابواب الطلاق،‌‌‌‌باب ما جاء في طلاق السنة، رقم الحديث: 1176)

الدر المختار میں ہے:

"(وأقسامه ثلاثة: حسن، وأحسن، وبدعي يأثم به)... (طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطء فيه) وتركها حتى تمضي عدتها (أحسن)."

(الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الطلاق، 231،230/3، سعید)

مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:''

" بلاوجہ شرعی طلاق دیناسخت گناہ ہے،اللہ تعالیٰ کوناراض کرنااور شیطان کوخوش کرناہے،البتہ اگرکسی وجہ سے شوہراور بیوی میں ایسی رنجش ہوگئی ہوکہ ایک دوسرے کے حقوق پامال ہورہے ہوں،اورطلاق کے بغیرچارہ ہی نہ ہوتوطلاق دینے کاسب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ شوہرایسے طہر میں جس میں صحبت نہ کی ہو صرف ایک طلاق دے،غصہ اور جوش میں آکرتین طلاق دینے کاجورواج چل پڑاہے،بلکہ بہت سے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ تین طلاق کے بغیرطلاق ہی نہیں ہوتی یہ بالکل غلط ہے،ایک طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے،اورشوہرعدت میں رجوع نہ کرے تو عدت پوری ہونے کے بعد عورت بائنہ(یعنی نکاح سے جدا)ہوجاتی ہے،اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے،جوش اورغصہ میں آکرتین طلاق دے دیتے ہیں ،جب جوش اور غصہ ختم ہوتاہے توپچھتانے اور پریشانی وپشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اگرایک طلاق دی ہوتی اور اس کے بعد شوہرکاارادہ بیوی کواپنے پاس رکھنے کاہوتوبہت آسان ہے، صرف قولاً یاعملاً رجوع کرلیناکافی ہے،عورت اس کے نکاح میں رہے گی،رجوع پرگواہ بنالینابہترہے،اوراگرعدت پوری ہوگئی اوراس کے بعد دونوں کاارادہ ساتھ رہنے کاہوجائے تودونوں کی رضامندی سے تجدیدنکاح (دوبارہ نکاح کرنا)کافی ہوگا،البتہ اس کے بعد شوہردوطلاق کامالک ہوگا"۔

(فتاویٰ رحیمیہ،جلدہشتم،ص:290،ط:دارالاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101726

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں