بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

علامہ اقبال کی بالِ جبریل میں نظم موسوم ذوق شوق کی شعر:لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب۔۔۔۔گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب: کی تشریح


سوال

مذکورہ شعر کی تشریح فرما دیجیے ۔

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

 

جواب

مذکورہ شعر شاعرِ مشرق علامہ اقبال رحمہ اللہ کی طرف منسوب بال جبریل میں شامل نظم’’ذوق و شوق‘‘ کے نام سے معروف نظم کا شعر  ہے،اس نظم کے اکثراشعار فلسطین میں لکھے گئےہیں۔

(بالِ جبریل، ص:151،  مطبوعہ :تاج بک ڈپو اردو بازار لاہور)

نیز   اس  نظم کے بارے میں ادب کے نامور محققین ناقدین اور کلام اقبال کے شارحین نے دو طرح کے نظریات پیش کیے ہیں، بعض ماہرین اقبالیات نے اسے حمد قرار دیا ہے اور بعض نے نعت، زیر نظر نظم کو حمد قرار دینے والوں میں ڈاکٹر عبد المغنی پیش پیش ہیں-انہوں نے اپنے مندرجہ ذیل تصانیف میں اسے ’’حمد خدا وندی‘‘ قرار دیا ہے

۱- اقبال اور عالمی ادب مطبوعہ اقبال اکیڈمی، لاہور)۲- اقبال کا فن نظم مطبوعہ اقبال اکیڈمی، لاہور )۳- اقبال کا ذہنی ارتقا، مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند، دہلی)

اس نظم کو ’’نعت‘‘ قرار دینے والے ماہرین اقبالیات کی تعداد زیادہ ہے، ان میں چند حضرات کے اسماء قابل ذکرہیں-

جیسے : ۱- فرہنگ اقبال نسیم امروہوی: مطبوعہ لاہور)۲- ڈاکٹر اقبال احوال و افکار،عبادت بریلوی:  مطبوعہ لاہور )

۳- یوسف سلیم: شرح بال جبریل مطبوعہ عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور)۴۔ میزان اقبال، از: مرزا منورمطبوعہ اقبال اکادمی لاہور،)

۵۔ غلام رسول مہرؔ: مطالب بال جبریل مطبوعہ لاہور  )

بہر حال اس شعر کی تشریح میں   بال جبریل کے چند شارحین کی شرح نقل کرتے ہے۔

 مولانا غلام رسول مہر  اپنی مایہ ناز کتاب" مطالب کلام اقبال" کے ،مطالب بالِ جبریل میں  کچھ یوں تشریح فرماتے ہے:

"لوح وقلم:لوح کا لفظی معنی تحتی،اسے لوح مخفوظ کہتے ہیں۔

قلم:جس سے لکھا جاتا ہے۔

لوح وقلم علم الٰہی کے بیان کی  ایک مثالی صورت ہے اور اس سے مراد علم الٰہی ہے،جو پوری کائنات پر حاوی ہے۔

الکتاب:قرآن مجید۔

آبگینہ رنگ:شیشا جیسا

محیط:لفظی معنی احاطہ کرنے والا،( سمندر)

تشریح : اے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی لوح ہیں،آپ ہی قلم ہیں ، علمی الٰہی صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے سب پر اشکارا ہوا،آپ ہی کا وجود مبارک قران مجید ہیں، اس لیے کہ آپ ہی خدا کے حکموں کو انسانوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے، یہ شیشے جیسا گنبد جسے ہم لوگ آ سمان کہتے ہیں، کہ آپ کے سمندر میں ایک بلبلے کی حیثیت رکھتا ہے۔

واضح ہو رہا ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو الکتاب کہنا بالکل مناسب ہے،  حضرت عائشہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا:كا ن خلقه القرآن:آپ کے اخلاق عالیہ قران کی جیتی جا گتی تصویر سے قران میں جو کچھ نازل ہوا اس کا مکمل عملی نمونہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات بابرکات تھیں۔

(" مطالب کلام اقبال" کے ،مطالب بالِ جبریل،  مولفہ مولانا غلام رسول مہر، ج:3، ص:218، ط:شیخ غلام علیاینڈ سنز(پرائیویٹ)لمیٹڈ پبلیشرز)

ڈاکٹر عارف بٹالوی (آر-پی-ایچ-ایس-ایم)اپنی شرح بال جبریل میں رقم طراز ہے:

"اے محمد رسول اللہ اگر اللہ تعالی آپ کو پیدا نہ کرتا،تو کائنات کو پیدا نہ کرتا،حتی کہ اللہ کی اخری کتاب قرآن مجیدبھی تجھ پر نازل ہوئی ہے، اور اللہ تعالی نے دین بھی تجھی پرمکمل فرمایااور تمام نعمتیں مکمل کردی ہیں۔

اگر ہم آپ کی ذات گرامی کو سمندر تصور  کریں،تو یہ آسمان اس سمندر میں بلبلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔"

( شرح بال جبریل، مولفہ ڈاکٹر عارف بٹالوی (آر-پی-ایچ-ایس-ایم)، ص:134، ط: نیو پیلس چوک،  اردو  بازار لاہور)

 سیدافتخار حیدر اپنی کتاب درویش بے گلیم، علامہ اقبال کی قرآنی فقر"میں کچھ یوں  شرح فرماتے ہے:

"اس شعر میں شاعر مرحوم  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  نعت بیان کی ہے جس کی تشریح درج ذیل ہے :

کسی بھی علم کو محفوظ کرنے کے ممکنہ تین طریقے اختیار  کیے جا سکتے ہیں:

 ۱۔ علمِ الٰہی ،جو اُس علم کا سر چشمہ ہے ، وہیں محفوظ کر لیا جائے۔

 ۲۔ اُسے کسی کاغذ ،کپڑے ،کھال ،چھال ،پتھر یا کسی اور شے کی تختی یعنی لوح پرمحفوظ کر دیا جائے۔

 ۳۔  جو اُسے سُنے یا پڑھے، وہ اپنے حافظے میں اسے محفوظ کر لے۔

قرآن کریم کی حفاظت کا تعلق پہلی صورت سے ہے ، جس میں ردّ و بدل ممکن نہیں۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے :

 "اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۔"( سورة الحجر الآية 9)

ترجمہ: "ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور ہم اس کے محافظ ( اور نگہبان) ہیں ۔"(از بیان القرآن)

نیز  ارشاد ہے:

"بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ" (سورۃ البروج:21)

ترجمہ :"(قرآن ایسی چیز نہیں جو جھٹلانے کے قابل ہو) بلکہ وہ ایک با عظمت قرآن ہے، جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ "(از بیان القرآن)

لوحِ محفوظ کی یہ پہلی صورت جس کا تعلقِ علمِ الٰہی سے ہے ، سب سے محفوظ ترین راستہ ہے۔ اس میں صرف قرآن ہی نہیں بلکہ تمام پہلی کتابیں بھی محفوظ ہیں۔ اسی لیے علمِ الٰہی میں سے ایک ہی ہدایت مختلف زمانوں میں ، مختلف نبیوں کے ذریعے ،انسانوں کی طرف نازل ہوتی رہیں۔

 اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کے لیے استعمال کیے گئے دوسرے طریقے کے متعلق ارشاد ہوا:

"وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ"(سورة الأعراف: الآية 145)

ترجمہ :" اور ہم نے چند تختیوں پر ہر قسم کی (ضروری) نصیحت اور (احکام ضرور یہ کے متعلق) ہر چیز کی تفصیل ان کو لکھ کردی۔"(از بیان القرآن)

تیسرے طریقے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ۔"(البقرہ:97)

 ترجمہ :" آپ (ان سے) یہ کہیئے کہ جو شخص جبریل سے عداوت رکھے سو انھوں نے یہ قرآن آپ کے قلب تک پہنچا دیا ہے خداوندی حکم سے اس کی (خود) یہ حالت ہے کہ تصدیق کررہا ہے اپنے سے قبل والی (سماوی) کتابوں کی اور رہنمائی کررہا ہے اور خوشخبری سنا رہا ہے ایمان والوں کو ۔" (از بیان القرآن)

گویا ’’قلبِ رسول ‘‘ہی وہ ’’لوح‘‘ ہے جس پر جبریل علیہ السلام کے ذریعے وحی فرما کر قرآن کو محفوظ کر لیا گیا۔ اس کی تائید میں مزید ارشاد ہوا:

"لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ انَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ  فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ  ثم إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ."(القیامۃ:16)

ترجمہ:"(اور اے پیغمبر آپ قبل اختتام (وحی ) قرآن ) پر اپنی زبان نہ ہلایاکیجئے تاکہ آپ اس کو جلدی لیں ،مارے ذمہ ہے (آپ کے قلب میں ) اس کا جمع کردینا اور پڑھوادینا ،جب ہم اسے پڑھیں (یعنی ہمارا فرشتہ اسے پڑھے ) تو آپ اسکی پیروی کریں ،پھر اس کا بیان کرادینا ہمارے ذمّہ ہے ۔"(از بیان القرآن)

صرف یہی نہیں اس کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سرکردگی میں ہی قلم کے ذریعے اس کی کتابت کروا کر کاغذی کتاب کی صورت میں بھی محفوظ کروا دیا۔اور نہ صرف یہ بلکہ مسلمانوں کو اسے بار بار دہرانے اور زبانی یاد کر کے حفظ کرتے جانے کا بھی بندوبست فرما دیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ  پورے جہاں کے انسان مل کر بھی اس کتاب کی طرح کی کوئ  ایک آیت بھی نہیں لکھ سکتے۔ کیونکہ کسی قسم کی لوح پر لکھنے والے قلم اس وقت تک ایسی کوئی تحریر نہیں لکھ سکتے جب تک کہ قلم تھامنے والے ہاتھ میں وحی کے علم اور حکمت کی جنبش پیدا نہ ہو۔ ایسی صورت میں وہ علم و حکمت ہی تحریر میں منتقل ہو رہے ہوتے ہیں جو قلبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحیٔ الٰہی سے محفوظ ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہی علم و تحریرکتابِ الٰہی کہلاتی ہے۔اس کا تعارف اللہ تعالیٰ نے قرآ نِ کریم میں دو سو سے زیادہ مقامات پر نہایت احسن انداز میں کروایا ہے ۔ مثلاً : وہ کتاب جس میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ کتاب بالحق۔ کتاب منیر۔کتاب اللہ۔ کتاب مبین۔ کتاب الحکیم ۔ کتابِ کریم۔احسن الحدیث۔ ان تمام ناموں کا اطلاق قلبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے جس پر جبریل علیہ السلام کے ذریعے اس کتاب کو نہ صرف نازل کیا گیا بلکہ اسے محفوظ بھی کیا گیا۔

یہ ہیں وہ دلائل جن کی بنیاد پر علامہ اقبالؔ  مرحوم کی نظر نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو’’لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب ــ‘‘ لکھا ہے۔اللہ تعالیٰ کے علم میں سے وہ علم جو انسانوں کے لیے مقسوم ہو چکا ہے ۔ اُسے وحیٔ الٰہی کے ذریعے قلب رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرما دیا جاتا ہے۔اسی کی بنیاد پر رسول اللہ کا بحرِ علوم ،انسان کے لیے مسخر کردہ سماوات و ارض پرمحیط ہوتا ہے ۔ علامہ اقبال ؔکے نزدیک اس علم کے محیطِ بیکراں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں، انسان کی حدّ ِنظر پہ پھیلے ہوئے نیلگوں آسمان کا ادراک ایک حباب کی مانند ہے… چنانچہ علامہ مرحوم نے تعبیر فرمائی: ’’ گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب‘‘۔"

(درویش بے گلیم، علامہ اقبال کی قرآنی فقر، ص:31، ،مسودہ ٹورنٹو کینیڈا)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں