بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک شریک نے مشترک زمین سے دوسرے کو اپنا حصہ فروخت کیا، لیکن چاردیواری اور پہلی منزل اس کو نہیں بیچی تو کیا حکم ہوگا ؟


سوال

دو بھائیوں نے مل کر ایک پلاٹ برابر کی شرکت کے ساتھ خریدا، بنیادیں، چار دیواری اور مین گیٹ لگانے میں بھی دونوں نے مل کر آدھا آدھا خرچہ کیا، پھر باہمی رضامندی سے گراؤنڈ فلور پر بڑے بھائی نے اپنے پیسوں سے اپنے لیے رہائشی مکان تعمیر کیا، اور چھوٹے بھائی نے فرسٹ فلور اپنے پیسوں سے تعمیر کیا، اس کے بعد بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کی اجازت سے دوسری منزل تعمیر کی، کچھ عرصے کے بعد چھوٹے بھائی کے مالی حالات خراب ہوئے تو بڑے بھائی نے کچھ رقم دی، جو اتنی ہی رقم تھی جو چھوٹے بھائی نے زمین خریدتے وقت اپنے آدھے حصے کی ادا کی تھی، بعد میں بڑے بھائی نے کہا کہ میں اپنی رقم نہیں لیتا اور تم زمین میں سے اپنا حصہ مجھے دے دو تاکہ پوری زمین میں اپنے نام کرالوں، واضح رہے کہ اس وقت چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کو صرف زمین میں سے اپنا حصہ فروخت کیا تھا،  چاردیواری میں جو اس کا حصہ تھااور جو اس نے اپنے پیسوں سے فرسٹ فلور بنایا تھا وہ فروخت نہیں کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ نہ تو بڑے بھائی نے اپنی زندگی میں کبھی یہ کہا کہ یہ عمارت صرف میری ہے اور نہ ہی اب اس کی اولاد یہ کہتی ہے کہ زمین کے ساتھ عمارت بھی فروخت کی گئی تھی، اب دونوں بھائیوں کا انتقال ہوچکاہے۔

بڑے بھائی کی اولاد یہ مانتے ہوئے بھی کہ چھوٹے بھائی نے صرف اپنا زمینی حصہ فروخت کیا تھا، تعمیر فروخت نہیں کی تھی، اب یہ کہہ رہی ہے کہ اس بلڈنگ میں چھوٹے بھائی کی اولاد کا کوئی حق نہیں ہے، وہ کہہ رہے ہیں کہ چھوٹے بھائی نے جو تعمیر کی تھی وہ چوں کہ کچھ عرصہ اس میں  رہ چکے ہیں اس لیے ان کا حق ختم ہوچکاہے، اور کبھی کہتے ہیں کہ عمارت بنانے کے وقت جتنی رقم استعمال ہوئی تھی اتنی رقم ہم دینے کے لیے تیار ہیں، اس سے زائد رقم ہم نہیں دیتے جب کہ چھوٹے بھائی کی اولاد یہ کہتی ہےکہ عمارت کی اس وقت جو ویلیو ہے وہ ہمیں ادا کی جائے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ شرعاً بڑے بھائی کی اولاد پر صرف وہی رقم ادا کرنا ضروری ہے جو تعمیر کے وقت خرچ ہوئی تھی یا موجودہ ویلیو کے اعتبار سے عمارت کی قیمت ادا کرنا ضروری ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ابتداءً زمین اور تعمیر ات دونوں بھائیوں کے درمیان مشترک تھیں، پھر بڑے بھائی نے اپنے قرضے کے عوض چھوٹے بھائی کا زمینی حصہ اس کی رضامندی سے اس سے خرید لیا تو پوری زمین بڑے بھائی کی ملکیت ہوگئی تھی، لیکن مشترک چار دیواری میں جو چھوٹے بھائی کا حصہ تھا اور   پہلی منزل جو اس نے اپنی ذاتی رقم سے بنائی تھی، وہ بدستور اس کی ملکیت میں رہیں اور فریقین اب بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بڑے بھائی نے صرف زمین کا حصہ خریدا تھا،تو  ایسی صورت میں بڑے بھائی کی اولاد کا یہ کہنا کہ "چھوٹا بھائی چوں کہ کچھ عرصہ اس مکان میں رہ چکا ہے، اس لیے اس کی اولاد کا اب اس بلڈنگ میں کوئی حق نہیں ہے" یا چھوٹے بھائی کی اولاد کو اس بات پر مجبور کرنا کہ "وہ  صرف تعمیر میں خرچ شدہ  لاگت لے کر اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں" شرعاً درست نہیں ، چار دیواری مشترک ہے اور پہلی منزل پر صرف چھوٹے بھائی کے ورثاء کا حق ہے، چھوٹے بھائی کے ورثاء پہلی منزل میں رہنا چاہیں یا موجودہ قیمت کے اعتبار سے فروخت کرنا چاہیں تو بڑے بھائی کی اولاد اُن پر کسی قسم کا جبر نہیں کرسکتی، ہاں اگر چھوٹے بھائی کے ورثاء اس مکان کو فروخت کرنا چاہیں تو خریداری کا پہلا حق بڑے بھائی کی اولاد کا ہے،ایسی صورت میں موجودہ ویلیو کے حساب سے باہمی رضامندی کے ساتھ  اس مکان کی جو قیمت علاوہ فرشی چھت کے  طے ہوجائے اس قیمت کے ساتھ خریدنا ضروری ہے۔

قاضی خان میں ہے:

"رجل امر غيره ببيع ارض فيها اشجار و باع الوكيل الارض باشجارها فقال المؤكل ما امرته ببيع الاشجار قال االشيخ الامام ابوبكر محمد بن الفضل رحمه الله تعالي القول قول المؤكل و المشتري ياخذ الارض بحصتها من الثمن ان شاء و كذا لو كان مكان الاشجار بناء۔"

(قاضي خان، جلد2، كتاب البيع، باب ما يدخل في البيع من غير ذكره و ما لا يدخل، فصل فيما يدخل في مبيع الكرم و الاراضي و ما لا يدخل، ص:124/25، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

ہدایہ میں ہے:

"الأصل أن ما يجوز إيراد العقد عليه بانفراده يجوز استثناؤه من العقد۔"

(هدایه، جلد3، کتاب البیوع، فصل من باع دارا دخل بناءھا فی البیع وان لم یسمه، ص: 28، ط:دار احیاء التراث العربي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله - رجل اشترى منزلا فوقه منزل فليس له الأعلى إلا إذا قال بكل حق هو له أو قال بمرافقه أو قال بكل قليل وكثير هو فيه أو منه۔"

(فتاوي هنديه، جلد3، كتاب البيوع، الباب الخامس فيمايدخل تحت البيع و ما لا يدخل، الفصل الاول فيما يدخل في بيع الدار و نحوها، ص:28، ط: مكتبه رشيديه)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال. مثلا: الأبنية التي فوقانيها ملك لأحد وتحتانيها لآخر فبما أن لصاحب الفوقاني حق القرار في التحتاني ولصاحب التحتاني حق السقف في الفوقاني أي حق التستر والتحفظ من الشمس والمطر فليس لأحدهما أن يعمل عملا مضرا بالآخر بدون إذنه ولا أن يهدم بناء نفسه۔"

(مجلة الاحكام العدلية، الكتاب العاشر: الشركات، الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان و الجيران، الفصل الاول في بيان بعض قواعد احكام الاملاك، ص: 230، ط: نور محمد، كارخانه تجارت كتب، آرام باغ، كراتشي)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الأبنية التي فوقانيها ملك لواحد وتحتانيها ملك لآخر فبما أن لصاحب الفوقاني حق القرار في التحتاني ولصاحب التحتاني حق السقف في الفوقاني أي حق التستر والتحفظ من الشمس والمطر فليس لأحدهما أن يعمل عملا مضرا بالآخر بدون إذنه (البحر) . وكون الفوقاني ملكا لصاحب الفوقاني والتحتاني ملكا لصاحب التحتاني مما يجوز تصرف أصحابهما ولكن تعلق حق الغير مما يمنع هذا التصرف فإذا اجتمع المانع والمقتضى فقد جمع بينهما أي عمل بهما معا وذلك لصاحب الفوقاني أن يتصرف تصرفا غير مضر لأن الفوقاني ملك له ولكن ليس له أن يتصرف تصرفا مضرا لأن لصاحب التحتاني حقا في ذلك، وكذلك لصاحب التحتاني أن يتصرف في التحتاني تصرفا غير مضر لأن التحتاني ملك له ولكن ليس له التصرف تصرفا مضرا لأن لصاحب الفوقاني حقا في ذلك فلذلك ليس لصاحب التحتاني أن يفتح بابا وكوة مجددا إذا كان ذلك مضرا بصاحب الفوقاني البحر والطحطاوي۔"

(دررالحكام في شرح مجلة الاحكام، جلد3،الكتاب العاشر: الشركات، الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان و الجيران، الفصل الاول في بيان بعض القواعد المتعلقة باحكام الاملاك، ص:206، ط: دار الحيل)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144304100461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں