بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک شریک کا گاہک مہیا کرنے پر گاہک سے کمیشن لینے کا حکم


سوال

 زید اور بکر کاروبار میں شریک ہیں،  گاڑی خریدتے ہیں اور پھر بیچتے ہیں،  البتہ یہ تمام کام زید کرتا ہے،  اب بکر کا کوئی جاننے والا عمرو نامی شخص گاڑی بیچنا چاہتا ہے تو بکر اس کی راہ نمائی زید کی جانب کردیتا ہے ، اور اسی کے ساتھ بکر اپنے جاننے والے عمرو سے گاڑی بکوانے پر دس ہزار کمیشن طے کر لیتا ہے، لیکن  یہ بات زید کو معلوم نہیں کہ بکر درمیان میں کمیشن لے گا، عمرو گاڑی کی قیمت 2 لاکھ دس ہزار بتاتا ہے، اور زید کی کوشش ہوتی ہے کہ کچھ پیسے کم ہوجائیں دو لاکھ ہی میں بات بن جائے،  لیکن عمرو کمیشن کی ادائیگی کی خاطر دس ہزار کم نہیں کرتا ، تو کیا اپنے شریکِ کاروبار سے چھپ کر بکر کے لئے عمرو سے کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں ؟ اور اگر وہ لے لیتا ہے تو کیا پھر زید کے لئے گنجائش ہے کہ وہ نفع سے اس قدر زائد پیسے اپنے پاس رکھ لے جو بکر نے کمیشن کے طور پر لئے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  بكر کے لیے عمرو سے بروکری(دلالی ) کی ااجرت لینا جائز نہیں ہے،  اگر اس نے لے لیا تو یہ کاروبار کا نفع شمار ہوگا اور یہی کمیشن  دونوں شرکاء(زید اور بکر ) کے درمیان نفع کے تقسیم کے متعلق جو معاہدہ ہوا ہے اس حساب سے تقسیم ہوگا۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"والشريكان في العمل إذا غاب أحدهما أو مرض أو لم يعمل وعمل الآخر فالربح بينهما على ما اشترطا؛ لما روي أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنا أعمل في السوق ولي شريك يصلي في المسجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك بركتك منه"، والمعنى أن استحقاق الأجر بتقبل العمل دون مباشرته والتقبل كان منهما وإن باشر العمل أحدهما، ألا ترى أن المضارب إذا استعان برب المال في بعض العمل كان الربح بينهما على الشرط أو لا ترى أن الشريكين في العمل يستويان في الربح وهما لا يستطيعان أن يعملا على وجه يكونان فيه سواء، وربما يشترط لأحدهما زيادة ربح لحذاقته وإن كان الآخر أكثر عملاً منه، فكذلك يكون الربح بينهما على الشرط ما بقى العقد بينهما وإن كان المباشر للعمل أحدهما ويستوي إن امتنع الآخر من العمل بعذر أو بغير عذر لأن العقد لا يرتفع بمجرد امتناعه من العمل واستحقاق الربح بالشرط في العقد".

(كتاب الشركة، استحقاق الربح في طريق الشركة، ج:11، ص:157، ط:دار المعرفة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلا لصيرورته شريكا۔۔۔ (ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر (كراهن استأجر الرهن من المرتهن) فإنه لا أجر له لنفعه بملكه۔۔۔ (قوله: فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة وهذه لا نظير لها إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لا ينعقد العقد."

  (کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ،ج:6 ، ص:57۔58۔60، ط:سعید )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں