ایک ہوٹل میرے والد اور چچا کے درمیان مشترک ہے، ہوٹل کی جگہ اور ہوٹل میں جتنا سامان ہے وہ دونوں کے درمیان مشترک ہے، اب میرا چچا کہہ رہا ہے کہ ہوٹل چاہے خود چلاؤ، چاہے کسی اور کو کرائے پر دو، آپ حضرات کی مرضی ہے، بس مجھے آدھا کرایا دے دیا کرو، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح کا معاملہ کرنا کہ ہم ہوٹل کو کرائے پر لے لیں اور چچا کو آدھا کرایہ دیں، آیا یہ جائز ہے یا اس میں سود تو نہیں ہے؟ جائز ہونے کی صورت بھی ذکر کریں اگر بالفرض مذکورہ صورت جائز نہ ہو۔
واضح رہے کہ ایک شریک کا مشترکہ چیز میں سے اپنے حصے کے بقدر دوسرے شریک کو کرائے پر دینا جائز ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے والد صاحب آپ کے چچا کے ساتھ اجارے (کرائے) کا معاملہ کرلیں یعنی ہوٹل میں سے جو آدھا حصہ چچا کا ہے اس کا ماہانہ کرایہ طے کر کے ہوٹل مکمل طور پر اپنے قبضے اور استعمال میں لے لیں اور چچا کو ماہانہ اس کے حصے کا طے شدہ کرایہ دے دیا کریں تو یہ معاملہ شرعاً جائز ہوگا اور یہ سود کے زمرے میں نہیں آئے گا، پھر آپ کے والد کو اختیار ہوگا کہ چاہیں تو مکمل ہوٹل اپنے پاس رکھ کر اس میں کاروبار کریں اور چاہیں تو کسی دوسرے کو وہ مکمل ہوٹل کرائے پر دے دیں، دونوں صورتیں جائز ہوں گی۔
الفتاوي التتارخانيةمیں ہے:
"٢٢٤٠٣ : - م: قال محمد في رجل آجر نصف داره مشاعا من أجنبي لم يجزء وإذا سكن المستأجر فيها يجب أجر المثل، وهذا قول أبي حينفة، وقال أبويوسف ومحمد والشافعي: يجوز، وإذا سكن المستأجر فيها يحب المسمى، وإذا آجر من شريكه يجوز بلا خلاف في ظاهر الرواية، وفي الفتاوى الخلاصة: سواء كان مشاعا يحتمل القسمة، أو لا يحتمل."
( كتاب الإجارة، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات وما لا يجوز، ومما يتصل بهذا النوع: مسائل الشيوع في الإجارة، 15 / 124، ط: مكتبة زكريا بدیوبند الهند)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وأجمعوا أنه لو آجر من شريكه يجوز سواء كان مشاعا يحتمل القسمة أو لا يحتمل وسواء آجر كل نصيبه منه أو بعضه كذا في الخلاصة."
( كتاب الإجارة، الباب السادس عشر في مسائل الشيوع في الإجارة، ٤ / ٤٤٨، ط: دار الفكر )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102758
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن