بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

ایک شریک کا اپنا حصہ دوسرے شریک کو کرایہ پر دینا


سوال

دو لوگوں نے مل کر ایک گاڑی  ڈیڑھ کروڑ روپے میں خریدی تھی،  ایک کروڑ ایک نے دیے اور پچاس لاکھ دوسرے دیے۔

پچاس لاکھ  دینے والا مذکورہ  گاڑی خود  چلانا چاہتا ہے، یعنی اپنے ذاتی استعمال میں رکھنا چاہتا ہے،  اور کہتا ہے کہ میں گاڑی کا  کرایہ تمہیں دوں گا،  کرایہ  ڈیڑھ لاکھ روپے طے پایا اور یہ بات طے ہوئی کہ گاڑی چلانے والا  ایک لاکھ روپے  ایک کروڑ روپے دینے والے شریک کو ادا کرے گا، جبکہ پچاس ہزار روپے کرایہ کی مد میں خود رکھے گا۔

1۔ کیا اس طرح ان کا یہ معاملہ کرنا درست تھا ؟

2۔ تین چار سال بعد جب  یہ گاڑی  فروخت کی جائے گی، تو اس وقت  تقسیم کرنے کی  کیا صورت کیا ہوگی ؟

جواب

1۔ صورت مسئولہ  میں ایک شریک دوسرے شریک سے اس کے حصہ کی گاڑی ماہانہ  کرایہ  مقرر کر کے لے سکتا ہے، البتہ اپنے حصہ کا کرایہ مقرر کرنے کی چنداں ضرورت نہ ہوگی، کیوں کہ  وہ اپنے حصہ کا مالک ہے، مالک کے لیے اپنی مملوکہ چیز  کسی عوض کے بغیر استعمال کرنا شرعا جائز ہوتا ہے، لہذا ایک کروڑ  دینے والے شریک کے حصہ کا کرایہ ایک لاکھ مقرر کر کے  ادا کردیا جائے۔۔

الفتاوي التتارخانيةمیں ہے:

"٢٢٤٠٣ : - م: قال محمد في رجل آجر نصف داره مشاعا من أجنبي لم يجزء وإذا سكن المستأجر فيها يجب أجر المثل، وهذا قول أبي حينفة، وقال أبويوسف ومحمد والشافعي: يجوز، وإذا سكن المستأجر فيها يحب المسمى، وإذا آخر من شريكه يجوز بلا خلاف في ظاهر الرواية، وفي الفتاوى الخلاصة: سواء كان مشاعا يحتمل القسمة، أو لا يحتمل."

( كتاب الإجارة، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات وما لا يجوز، ومما يتصل بهذا النوع: مسائل الشيوع في الإجارة، ١٥ / ١٢٤، ط: مكتبة زكريا بدیوبند الهند )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأجمعوا أنه لو آجر من شريكه يجوز سواء كان مشاعا يحتمل القسمة أو لا يحتمل وسواء آجر كل نصيبه منه أو بعضه كذا في الخلاصة."

( كتاب الإجارة، الباب السادس عشر في مسائل الشيوع في الإجارة، ٤ / ٤٤٨، ط: دار الفكر )

2۔ مستقبل میں  مذکورہ گاڑی جب فروخت کی جائے، تو اس وقت کی قیمت کے اعتبار سے 33.33 فیصد  پچاس لاکھ دینے والے شریک کو، اور 66.66 فیصد ایک کروڑ  دینے والے شریک کو دے دیے جائیں، یا قیمت لگانے کے بعد ایک شریک دوسرے شریک کے حصے کی رقم اسے ادا کرکے مذکورہ گاڑی  کا اکیلا مالک بن جائے۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكاممیں ہے:

"المادة (٨٨ ٠ ١) - (لأحد الشريكين إن شاء بيع حصته إلى شريكه إن شاء باعها لآخر بدون إذن شريكه.  أما في صورة خلط الأموال واختلاطها التي بينت في الفصل الأول فلا يسوغ لأحد الشريكين أن يبيع حصته في الأموال المشتركة المخلوطة أو المختلطة بدون إذن شريكه) لأحد الشريكين إن شاء بيع حصته إلى شريكه في جميع صور الاشتراك إذا لم يكن ذلك مضرا بأي شخص كان وإن شاء باعها لآخر بدون إذن شريكه فيما عدا خلط واختلاط الأموال. "

(الكتاب العاشر الشركات، الباب الأول في بيان شركة الملك، الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، ٣ / ٤٨، ط: دار الجيل )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501101291

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں