بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک شخص کے گھر میں کُتیا نے بچے دیے، تو کیا اس کو مبارک باد دینا جائز ہے؟


سوال

ایک شخص کے گھر میں کُتی نے بچے دیے، تو کیا اس کو مبارک باد  دینا جائز ہے؟

جواب

احادیث میں ضرورت کے بغیر کتا پالنے کی سخت ممانعت آئی ہے، جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے  اور ایک حدیث میں ہے کہ  بلا ضرورت کتا پالنے والے کے اعمال  میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے؛ لہذا کتے پالناکوئی خیروبرکت والا کام نہیں،بلکہ مجبوری  کی بنا پرپالنے کی گنجائش شریعت نے دی اوروہ بھی احتیاط کے ساتھ لہذا جب یہ خیر وبرکت اورسعادت والا کام نہیں تو اس کےبچے جننے پرمبارک باد دینابھی دُرست طریقہ نہیں، ایسی مبارک باد تو عام طور پر وہی لوگ دیتے ہیں جن کو کتوں سے خاص اُنسیت اور محبت ہوتی ہے،جو کہ مؤمن کی شان نہیں ۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي طلحة،عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «‌لا ‌تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة»."

(كتاب بدء الخلق،‌‌باب إذا وقع الذباب في شراب أحدكم فليغمسه،ج:4،ص:130،ط:المطبعة الكبرى الأميرية،ببولاق مصر)

"ترجمہ:حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت  ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ  رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتاہو"۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من اتخذ كلبا إلا كلب ماشية، أو صيد، أو زرع، ‌انتقص من أجره كل يوم قيراط".

(‌‌باب ما جاء من أمسك كلبا ما ينقص من أجره،ج:4،ص:80،ط:مطبعة مصطفى البابي الحلبي،مصر)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہرروز ایک قیراط کم ہوگا"۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي الأجناس: لاينبغي أن يتخذ كلباً إلا أن يخاف من اللصوص أو غيرهم،وكذا الأسد والفهد والضبع وجميع السباع وهذا قياس قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - كذا في الخلاصة،ويجب أن يعلم بأن اقتناء الكلب لأجل الحرس جائز شرعا وكذلك اقتناؤه للاصطياد مباح وكذلك اقتناؤه لحفظ الزرع والماشية جائز كذا في الذخيرة".

(الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات،ج:5،ص:361،ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407102135

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں