بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک شخص کا دوسرے کو اپنا سامان بیچنے کے لیے دینا اور روزانہ مخصوص رقم لینے کا حکم


سوال

عدنان باہر ملک میں رہتا ہے اور اس کے کام کی نوعیت یہ ہے کہ وہاں کا ایک مقامی باشندہ عدنان کو گاڑی فراہم کرتا ہے اور اس گاڑی میں روز مرہ استعمال کی کچھ اشیاء جیسے صابن شیمپو وغیرہ بھی دیتا ہے ،یعنی گاڑی بھی اس کی ہے اور سامان بھی اس کا ہے ،اب عدنان وہ سامان والی گاڑی لے کر مختلف سٹورز کو وہ سامان سپلائی کرتا ہے ،پیٹرول کا خرچہ اور نفع و نقصان اور گاہک کی تلاش یہ سب عدنان کے ذمہ ہے ،دن کے آخر میں عدنان ایک مخصوص رقم مالک کو دے دیتا ہے ،اس معاملے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر یہ جائز نہیں ہے ،تو اس کی جائز صورت کیا ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں عدنان کا مذکورہ معاملہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے ؛ کیوں کہ یہ اجارہ فاسدہ ہے ، البتہ اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مذکورہ شخص (مالک) عدنان کی یومیہ یا ماہانہ اجرت مقرر کرے ، اس صورت میں سارا نفع مالک کا ہوگا اور عدنان صرف تنخواہ کا حق دار ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وشرطها إلخ) .... (قوله كون الأجرة والمنفعة معلومتين) أما الأول فكقوله بكذا دراهم أو دنانير وينصرف إلى غالب نقد البلد، فلو الغلبة مختلفة فسدت الإجارة ما لم يبين نقدا منها فلو كانت كيليا أو وزنيا أو عدديا متقاربا فالشرط بيان القدر والصفة۔۔۔وأما الثاني فيأتي في المتن قريبا (قوله ساعة فساعة) ؛ لأن المنفعة عرض لا تبقى زمانين، فإذا كان حدوثه كذلك فيملك بدله كذلك قصدا للتعادل، لكن ليس له المطالبة إلا بمضي منفعة مقصودة كاليوم في الدار والأرض والمرحلة في الدابة كما سيأتي."

(کتاب الإجارۃ، شروط الإجارۃ، ج:6، ص:5، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"(الفاسد) من العقود (ما كان مشروعاً بأصله دون وصفه، والباطل ما ليس مشروعاً أصلاً) لا بأصله ولا بوصفه (وحكم الأول) وهو الفاسد (وجوب أجر المثل الاستعمال) لو المسمى معلوماً، ابن كمال."

(‌‌كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:45، ط:سعید)

وفيه أيضا:

"(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:46، ط:سعيد)

"فتح القدير للكمال ابن الهمام"میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد، ج:9، ص:140، ط:دار الفكر، لبنان)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا وتحقيقه في الدرر وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل."

"(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا..... (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(كتاب الإجارة،‌‌ باب ضمان الأجير، مبحث الأجير الخاص، ج:6، ص:69، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں