بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سے زائد بیویوں کے درمیان برابری کے حکم کی تفصیل


سوال

میں نے دو شادیاں کی ہیں، پہلی بیوی سے سات بچے ہیں، سب سے بڑا بیٹا ہے، جس کی عمر 23 سال ہے اور سب سے چھوٹی بیٹی ہے، جس کی عمر ڈیڑھ سال ہے، جب کہ دوسری بیوی سے تین بیٹیاں ہیں، یہ تینوں اس کے سابقہ شوہر سے ہیں اور اب میری کفالت میں ہیں، مجھے دونوں بیویوں کے درمیان برابری کرنے میں کچھ دشواری پیش آتی ہے، اس سلسلے میں آپ سے میرے چند سوال ہیں:

1- اگر میں گھر میں گوشت لاؤں تو پہلی والی کے لیے کتنا لاؤں اور دوسری والی کے لیے کتنا؟  اور اسی طرح دوسری چیزیں فروٹ وغیرہ میں کیسے برابری کروں؟

2- میں دن میں ایک گھنٹہ پڑھاتا ہوں اور ڈھائی سے ساڑھے آٹھ تک دکان پر ہوتا ہوں، باقی اوقات گھر پر ہوتا ہوں، جس بیوی کی باری ہوتی ہے، رات کا کھانا اسی کے ہاں کھاتا ہوں اور اس رات تھوڑے وقت کے لیے جس بیوی کی باری نہیں ہوتی، اس کے حال احوال بھی لیتا ہوں،لیکن پہلی بیوی کا مطالبہ ہے کہ مجھے زیادہ ٹائم دیا کریں اور بچیاں مدرسہ پڑھتی ہیں، ان کا حال احوال بھی لیا کریں تو اس لحاظ سے دن رات میں دونوں کو وقت دینے میں کیسے برابری کروں؟

3- بعض چیزوں کی اگر کسی بیوی کو ضرورت ہو، مثلاً: کمبل وغیرہ، جب کہ دوسری کے پاس وہ پہلے سے موجود ہو اور اسے ضرورت نہ ہو تو کیا دونوں کے لیے ایسی چیز لانا ضروری ہے یا صرف جس کو ضرورت ہو، اس کے لیے لانا کافی ہے؟ نیز اس موضوع سے متعلق کسی کتاب کی طرف راہ نمائی بھی فرمادیں۔

جواب

1- واضح رہے کہ شوہر پر بیوی کا نفقہ میاں بیوی دونوں کے اعتبار سے لازم ہے، اگر دونوں مال دار ہیں تو شوہر پر امیروں والا نفقہ لازم ہے، اگر دونوں غریب ہیں تو غریبوں والا اور اگر ایک مال دار اور ایک غریب ہے تو درمیانے درجہ کالازم ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل پر دونوں بیویوں کا نفقہ ان بیویوں اور ان کے بچوں کے لحاظ سے لازم ہے، سائل کی پہلی بیوی سے اولاد چوں کہ دوسری بیوی کی بنسبت زیادہ ہے اس لئے  اس بات کی رعایت رکھتے ہوئے پہلی بیوی اور اس سے ہونے والے بچوں کے لیے گوشت، سبزی، فروٹ اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں زیادہ لائے اور دوسری بیوی اور اس کے بچوں کے لیے کم، لیکن اس چیز میں لازماً برابری کرے کہ کوئی بھی چیز اگر پہلی کے لیے لائے تو دوسری والی کے لیے بھی لازماً لائے، اگرچہ پہلی والی کے لیے اس کے بچوں کی وجہ سے زیادہ لانا پڑے اور دوسری والی کے لیے کم اور یہ اولاد کے نفقہ کی وجہ سے ایک کو زیادہ اور دوسری کو کم دینا پڑ رہا ہے۔

2- جس بیوی کی باری ہو، رات اس کے ہاں گزارنا لازم ہے، کیوں کہ برابری کا حکم رات کے سلسلے میں ہے، البتہ دن میں  برابری لازم نہیں، اس لیے دن میں اگر کسی کو زیادہ وقت دے اور کسی کو کم تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لہٰذا سائل کی پہلی بیوی سے ہونے والے بچوں کے تعلیمی  حال احوال پوچھنے کے لیے اگر کچھ وقت انہیں زیادہ دینا پڑجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

3- ضرورت کے موقع پر جسے جس چیز کی ضرورت ہو تو صرف اسے وہ چیز لے کر دینا کافی ہے، دونوں کے لیے لانا ضروری نہیں، مثلاً جب ایک بیمار ہوتی ہے تو دوائیں صرف اسی کے لیے لانی پڑتی ہیں، دوسری کے لیے لانے کی ضرورت نہیں ہوتی تو یہی حال کمبل اور دوسری ضرورت کی چیزوں کا ہے، البتہ بغیر ضرورت کے گھر میں اگر ایک کے لیے کوئی بھی چیز لائے تو وہ دوسری کے لیے بھی لانا ضروری ہے۔

قرآنِ کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْا أَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَإِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا" (النساء: 129)

"ترجمہ: اور تم سے یہ تو کبھی نہ ہوسکے گا کہ سب بیبیوں میں برابری رکھو گو تمہارا جتنا ہی جی چاہے تو تم بالکل تو ایک ہی طرف نہ ڈھل جاؤ جس سے اس کو ایسا کردو جیسے کوئی ادھر میں لٹکی ہو اور اگر اصلاح کرلو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے بڑے رحمت والے ہیں۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند رجل إمرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة و شقه ساقط. رواه الترمذي و أبو داؤد و النسائي و ابن ماجه و الدارمي."

(ج:2، ص:280، باب القسم، الفصل الثاني، ط:قديمي)

"ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:  جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں  اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة).

وفي الرد: (قوله: وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل. ثم إن هذا معطوف على قوله: فيه، وضميره للقسم المراد به البيتوتة فقط بقرينة العطف، وقد علمت أن العدل في كلامه بمعنى عدم الجور لا بمعنى التسوية، فإنها لا تلزم في النفقة مطلقا. قال في البحر: قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، وهكذا ذكر الولوالجي، والحق أنه على قول من اعتبر حال الرجل وحده في النفقة. وأما على القول المفتى به من اعتبار حالهما فلا، فإن إحداهما قد تكون غنية والأخرى فقيرة، فلا يلزم التسوية بينهما مطلقا في النفقة. اهـ. وبه ظهر أنه لا حاجة إلى ما ذكره المصنف في المنح من جعله ما في المتن مبنيا على اعتبار حاله."

(ج:3، ص:202، کتاب النکاح، باب القسم بين الزوجات، ط:سعيد)

وایضاً:

"(وللأمة والمكاتبة وأم الولد والمدبرة) والمبعضة (نصف ما للحرة) أي من البيتوتة والسكنى معها،أما النفقة فبحالهما.

وفي الرد: (قوله: أما النفقة) هي الأكل والشرب واللبس والمسكن (قوله: فبحالهما) أي إن كان كل من الزوج والزوجة غنيين فالواجب نفقة الأغنياء أو فقيرين فنفقة الفقراء أو مختلفين فالوسط، وهذا هو المفتى به كما مر، وقدمنا أن كلام المصنف والشارح محمول عليه فافهم."

(ج:3، ص:206، کتاب النکاح، باب القسم بين الزوجات، ط:سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"والذي يقتضيه الحديث أن التسوية في المكث أيضا بعد البيتوتة، ففي السنن عن عائشة - رضي الله عنها - قالت: «كان النبي صلى الله عليه وسلم لايفضل بعضًا على بعض في القسم في مكثه عندنا، وكان قل يوم إلا وهو يطوف علينا جميعا فيدنو من كل امرأة منا من غير مسيس حتى يبلغ إلى التي هو في يومها فيبيت عندها» وعلم من هذا أن النوبة لا تمنع أن يذهب إلى الأخرى لينظر في حاجتها ويمهد أمورها.وفي صحيح مسلم «أنهن كن يجتمعن في بيت التي يأتيها» والذي يظهر أن هذا جائز برضا صاحبة النوبة، إذ قد تتضيق لذلك وتنحصر له."

(ج:3، ص:435، کتاب النکاح، باب القسم، ط: دار الفکر)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"وعماد القسم الليل، ولا يجامع المرأة في غير يومها ولا يدخل ليلا على التي لا قسم لها، ولا بأس أن يدخل عليها نهارا لحاجة ويعودها في مرضها في ليلة غيرها، فإن ثقل مرضها فلا بأس أن يقيم عندها حتى تشفى أو تموت، كذا في الجوهرة."

(ج:1، ص:355، کتاب النکاح، باب القسم، دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويقيم عند كل واحدة منهن يوما وليلة) لكن إنما تلزمه التسوية في الليل حتى لو جاء للأولى بعد الغروب وللثانية بعد العشاء فقد ترك القسم، ولا يجامعها في غير نوبتها، وكذا لا يدخل عليها إلا لعيادتها ولو اشتد، ففي الجوهرة: لا بأس أن يقيم عندها حتى تشفى أو تموت انتهى، يعني إذا لم يكن عندها من يؤنسها.

وفي الرد: (قوله: لكن إلخ) قال في الفتح: لا نعلم خلافا في أن العدل الواجب في البيتوتة والتأنيس في اليوم والليلة، وليس المراد أن يضبط زمان النهار، فبقدر ما عاشر فيه إحداهما يعاشر الأخرى بل ذلك في البيتوتة، وأما النهار ففي الجملة اهـ يعني لو مكث عند واحدة أكثر النهار كفاه أن يمكث عند الثانية ولو أقل منه، بخلافه في الليل نهر. (قوله: ولا يجامعها في غير نوبتها) أي ولو نهارا ط. (قوله: يعني إذا لم يكن إلخ) هذا التقييد لصاحب النهر بحثا، وهو ظاهر، وأطلقه في الشرنبلالية."

(ج:3، 207، کتاب النکاح، باب القسم بين الزوجات، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144306100394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں