پچھلے سال سے میری بیوی ایک ذہنی بیماری سے دوچار ہے جس کے نتیجے میں ہم الگ رہ رہے ہیں،تاہم ہماری حالیہ گفتگو میں سے ایک گفتگوکے دوران، میں نے اسے دھمکی آمیز ریمارک کرتے ہوئے کہامیں I divorce you I divorce you I divorce you مستقبل میں طلاق دینے کے لیے یہ جملہ استعمال کرنے کے بعد میں نے اسے ای میل کیا کہ یہ مستقبل میں ہے، ہم نے ایک مقامی قاضی سے مدد طلب کی، جس نے اسے ایک رجعی طلاق سمجھا، اگر آپ مجھے اس پر کوئی فتویٰ دے دیں تو میں اس کی بہت تعریف کروں گا۔ معاملہ میں اس بارے میں وضاحت طلب کر رہا ہوں کہ آیا یہ ایکٹ ایک درست طلاق کو تشکیل دیتا ہے اور مجھے آگے بڑھنے کے لیے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ divorce کا لفظ انگریزی زبان میں طلاق ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے،اور"I divorce you"(یعنی میں تمہیں طلاق دیتا ہوں)Present Simple(یعنی فعلِ مضارع)کاصیغہ ہے،جس کااستعمال لغۃً توحال اورمستقبل(موجودہ اورآنےوالے)دونوں زمانوں کےلیےہوتاہے،تاہم"I divorce you"(یعنی میں تمہیں طلاق دیتا ہوں)کاغالب استعمال چوں کہ موجودہ زمانےمیں طلاق دینےکےلیےہوتاہے،اس لیےاس سےفوری طلاقِ رجعی واقع ہوجاتی ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کااپنی بیوی کوتین مرتبہ یہ "i divorce you I divorce you I divorce you"کہنےسےمذکورہ عورت پرتین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،دونوں میاں بیوی کے درمیان نکاح ختم ہوچکا ہے، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب نہ تو رجوع کرنا جائز ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا جائز ہے، بیوی عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، دوسری جگہ نکاح کرنے کی صورت میں اگر ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ طلاق دے دے تو اس دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی اجازت ہوگی۔
مقامی قاضی کاسائل کے i divorce you I divorce you I divorce youمذکورہ جملہ تین مرتبہ دوہرانے سےصرف ایک طلاقِ رجعی سمجھنادرست نہیں ہے؛اس لیے کہ ایک ساتھ یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینا خلافِ سنت ضرورہے،اور ایسا کرنے والا گناہ گارہے، جس کی وجہ سے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، تاہم اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح تین طلاقیں دے دے تو قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمولِ ائمہ اربعہ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے نزدیک ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں، جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں ان کا قول قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ کے مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے،لہذا مقامی قاضی کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاقِ رجعی قراردینا درست نہیں ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
"﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ ."[البقرة: 230]
ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی تو جب وہ عورت دوسرے نکاح نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔" (بیان القرآن)
صحیح بخاری میں ہے:
"عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول".
(کتاب الطلاق، باب من اجاز طلاق الثلاث، ج: 7، ص: 43، رقم: 5261، ط:سلطانیة)
ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی،پھر ان کی بیوی نے دوسری شادی کر لی، پھر دوسرے شوہر نے بھی (ہمبستری سے پہلے) انہیں طلاق دے دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا(اب)وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، یہاں تک کہ وہ یعنی شوہر ثانی اس کا مزہ چکھے جیسا کہ پہلے نے مزہ چکھا تھا۔"
فتح القدیر میں ہے:
"ولا يقع بأطلقك إلا إذا غلب في الحال."
[كتاب الطلاق، باب إيقاع الطلاق، ج:4، ص:7، دار الفكر]
العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام."
(كتاب الطلاق،ج:1،ص:38،ط:دار المعرفة)
شرح النووی علی المسلم میں ہے:
"وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث."
(كتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث، ج:10، ص:70، ط: دار إحياء التراث العربي)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."
(كتاب الطلاق ،ركن الطلاق، ج:3، ص:233، ط: سعيد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا".
(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی، ج:1، ص:349، ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508100265
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن