بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ساتھ تین طلاق دینے کا حکم


سوال

ایک آدمی نے اپنی شک کی طبعیت کی بنا  پر اپنی اہلیہ کو تین طلاق ایک ساتھ دی ہیں،  کیا اس طرح کہنے سے طلاق واقع ہو گئی ہے؟ 

جواب

ایک ساتھ یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینا خلافِ سنت ہے، ایسا کرنے والا سخت گناہ  گارہے، جس کی وجہ سے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، تاہم اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح تین طلاقیں دے دے تو قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمولِ ائمہ اربعہ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ،  حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے نزدیک ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں، جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں ان کا قول  قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ  کے مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، میاں بیوی  کے درمیان نکاح ختم ہوچکا ہے، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  اب نہ تو رجوع کرنا جائز ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا جائز ہے، بیوی عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی،  دوسری جگہ نکاح کرنے کی صورت میں اگر ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ طلاق دے دے تو اس دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی اجازت ہوگی۔

فتاویٰ شامی (3/ 233) میں ہے:

 "و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

شرح النووي على مسلم (1/ 474، قدیمی) میں ہے:

"وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا، فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَ مَالِكٌ وَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَ الْخَلَفِ: يَقَعُ الثَّلَاثُ".

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا" .

(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی، ج:1، ص:349، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں