بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سفر میں دوسرے عمرے کی شرعی حیثیت


سوال

ایک سفر میں دوسرے عمرے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور احرام کہاں سے باندھا جائے گا؟

جواب

ایک سفر میں متعدد عمرے کرنا ،نہ صرف جائز ہے ،بلکہ ایک مستحب عمل ہے  اورپے در پے عمرہ کرنے کی   آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ترغیب دی ہے ،اوربعض صحابہ اور تابعین سے بھی اس کی ترغیب منقول ہے ،چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "پے در پے حج ،عمرہ کیا کرو کیوں کہ یہ فقر اور گناہوں کو ایسے ختم کردیتے ہیں جس طرح بھٹی  لوہے اور سونے ،چاندی کے میل کو ختم کردیتی ہے" اور ایک موقع پر ارشاد فرمایا "(دوسرا)عمرہ (پہلے)عمرے تک کے سارے گناہوں کا کفارہ ہے"،  حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ" وہ ایک عرصہ تک مکہ میں آکر رہے اور جب بھی ان کے بال بڑے ہوتے تھےوہ عمرہ کر لیا کرتے تھے " ،حضرت طاووس رحمہ اللہ سے منقول ہے "جب ایام تشریق گزر جائیں تو جب چاہو عمرہ کرو"،اسی طرح حضرت عکرمہ رحمہ اللہ سے منقول ہے "جب تک سر پہ اُسترا چلا نا ممکن رہے عمرے کرتے رہو "،ان تمام آثار سے اس بات کا ثبوت ہوتا ہے  کہ کثرت سے عمرے کرنا مستحب ہے اور ایک سفر میں ہونے یا مختلف اسفار میں ہونے کی کوئی قید نہیں ہے۔

اور جب  مکہ میں رہتے ہوئے دوسرا عمرہ کرنےکا ارادہ ہو تو  اس کا احرام باندھنے کے لیے حدود حرم سےنکل کر عمرے کی نیت کرنا ضروری ہے ، کسی بھی جانب سے حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھ کر عمرے کی نیت کی جاسکتی ہے، البتہ بہتر ہے کہ "تنعیم"  نامی مقام  پر موجود  "مسجد ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا "   سے احرام باندھ لے۔ 

بخاری شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: العمرة إلى ‌العمرة ‌كفارة لما بينهما، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة."

(ص:629 ،ج:2،باب وجوب العمرة و فضلها،ط:دار ابن  کثیر)

ترمذی شریف میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تابعوا ‌بين الحج والعمرة، فإنهما ينفيان الفقر والذنوب كما ينفي الكير خبث الحديد، والذهب، والفضة، وليس للحجة المبرورة ثواب إلا الجنة."

(ص:166 ،ج:3،باب ما جاء في ثواب الحج والعمرة،ط:البابی مصر)

نسائی شریف کی شرح ذخیرۃ العقبیٰ میں ہے:

"وروينا عن طاوس: إذا مضت أيام التشريق، فاعتمر متى شئت وعن عكرمة اعتمر متى أمكنك الموسىٰ... وعن أنس بن مالك أنه أقام مدة بمكة، فكلما جم رأسه  خرج فاعتمر."

(ص:304،ج:23،باب فضل الحج المبرور،ط:دار المعراج)

تحفۃ الفقہاء میں ہے:

"فإن أراد أن يعتمر بعد الفراغ من الحج وبعدما مضى أيام النحر والتشريف كان له ذلك ولكنه يخرج إلى التنعيم فيحرم من ذلك الموضع لأنه لما فرغ من الحج صار كواحد من أهل مكة وميقاتهم للعمرة من الحل نحو التنعيم وغيره."

(ص:410،ج:1،كتاب المناسك،باب الاحرام،ط:دار الکتب العلمیۃ)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وكذلك إن كان بمكة، وأراد أن يعتمر خرج من الحرم إلى الحل من أي جانب شاء، وأقرب الجوانب التنعيم وعنده مسجد عائشة رضي الله عنها وسبب ذلك أنها قالت: يا رسول الله أو كل نسائك ينصرفن بنسكين، وأنا بنسك واحد؟ فأمر أخاها عبد الرحمن أن يعمرها من التنعيم مكان عمرتها يعني مكان العمرة التي رفضتها."

(ص:29،ج:4،كتاب المناسك،باب القران،ط:دار المعرفۃ ،بیروت)

التجرید للقدوری میں ہے:

"وأما السفرين فلا يعتبرونه؛لأن عندهم إذا فرغ من الحج واعتمر، فهو أفضل من القران والسفر واحد."

(ص:1721،ج:4،كتاب الحج،مسالة القران افط:دار السلام)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408100832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں