بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک صدقہ فطر کئی مساکین میں تقسیم کرنا / کئی صدقہ فطر ایک مسکین کو دینا


سوال

ایک غریب شخص کو ایک یا دو اشخاص کا صدقہ فطر پورا کا پورا دینا صحیح ہے یا نہیں؟  اگر کسی کو آدھا ملا یا پورا نہ ملا تو صدقہ فطر ادا ہوا یا نہیں؟  اگر صدقہ فطر 100 روپیہ ہے تو ایک شخص کو 100 یا 200 یا 300 (1,2,3)افراد کا صدقہ فطر دینا درست ہے؟ اگر اس نے کسی غریب کو 150 یا 230 وغیرہ دیے تو صدقہ ادا ہوا یا نہیں؟

جواب

ایک شخص کا صدقہ فطر دو یا دو سے زائد افراد/مساکین میں تقسیم کرنا جائز ہے۔  (امداد الفتاوی) اسی طرح ایک مسکین کو کئی افراد کا صدقہ فطر بھی دینا جائز ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)  میں ہے:

"(وجاز دفع كل شخص فطرته إلى) مسكين أو (مساكين على) ما عليه الأكثر، وبه جزم في الولوالجية والخانية والبدائع والمحيط، وتبعهم الزيلعي في الظهار من غير ذكر خلاف، وصححه في البرهان، فكان هو (المذهب) كتفريق الزكاة، والأمر في حديث "أغنوهم" للندب؛ فيفيد الأولوية، ولذا قال في الظهيرية: لايكره التأخير أي تحريمًا (كما جاز دفع صدقة جماعة إلى مسكين واحد بلا خلاف)". ( ٢ / ٣٦٧) . فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109202997

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں