بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سال پہلے عمرہ کی بکنگ کرانے پر کم پیسوں میں عمرہ کرانا


سوال

 ایک صاحب کہتے ہیں ہم عمرہ آپ کو  پچاس ہزار روپے میں کرادیں گے، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کو پچاس ہزار روپے ایک سال پہلے جمع کرنا ہوں گے، مثلاً اس سال جنوری میں اگر پچاس ہزار جمع کرایا تو اگلے سال جنوری میں آپ کو عمرہ کرایا جائے گا، قابل غور بات یہ ہے کہ عمرہ اس وقت انڈیا میں تقریباً ایک لاکھ روپے میں یا اس سے کچھ کم میں کرایا جاتا ہے، تو پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح ایک سال پہلے پیسے جمع کرنا کیسا ہے؟ اور جب ان سے پوچھا گیا جو عمرہ کراتے ہیں، آپ ہمارا پیسہ ایک سال پہلے لےکر اس کو کہاں استعمال کریں گے؟ ظاہر سی بات ہے آپ اس کو کہیں نہ کہیں تو استعمال کریں گے ہی اور اس سے نفع بھی کمائیں گے تبھی تو ایک لاکھ کے بجائے پچاس ہزار میں عمرہ کرارہے ہیں، اور ایک سال پہلے پیسہ لے رہے ہیں تو ان کا کہنا ہے ہم اس پیسے کا کچھ بھی کریں آپ کو بتانا ضروری نہیں ہے، آپ سے تو ہم نے عمرے کے نام پر پیسے لئے ہیں، ہم اس کا کچھ بھی کریں، تو اس صورت میں پیسے ایک سال پہلے جمع کرنا اور عمرہ کرنا کیسا ہے؟

جواب

اگر کوئی کمپنی کم پیسے لے کر ایک سال بعد عمرہ کرادیتی ہے تو کمپنی کی اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ابتداء میں معاملہ صاف اور مکمل طور پر طے کرلیا جائے۔یہ اجارہ کا معاملہ ہے، بیع صرف کا معاملہ نہیں ہے، ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری نہیں ہے۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة : 468) تلزم الأجرة بشرط التعجيل يعني لو شرط كون الأجرة معجلة، يلزم المستأجر تسليمها إن كان عقد الإجارة واردا على منافع الأعيان أو على العمل ففي الصورة الأولى للآجر أن يمتنع عن تسليم المأجور وفي الصورة الثانية للأجير أن يمتنع عن العمل إلى أن يستوفيا الأجرة وعلى كلتا الصورتين لهما المطالبة بالأجرة نقدا فإن امتنع المستأجر عن الإيفاء فلهما فسخ الإجارة.

تلزم الأجرة بشرط التعجيل: أي إذا شرط إعطاء الأجرة معجلة سواء أكان ذلك في أثناء عقد الإجارة أو بعده (انظر المادة 83)"

(کتاب الاجارۃ،الباب الثالث في بيان مسائل تتعلق بالأجرة،ج1،ص513،ط؛دار الجیل)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم الاجرة تستحق بأحد معان ثلاثة:إما بشرط التعجيل أوبالتعجيل أوباستيفاء المعقودعليه"

(كتاب الاجارة،الباب الثاني،ج4،ص:443،ط: دارالفكر)

ہدایہ میں ہے:

"الإجارة: عقد على المنافع بعوض"

(‌‌كتاب الإجارات، ج:3،ص:230،  ط:دار احياء التراث العربي - بيروت - لبنان)

فيه ايضا

‌لا ‌يستوجب الأجر ‌قبل ‌الفراغ لما بينا. قال: "إلا أن يشترط التعجيل" لما مر أن الشرط فيه لازم"

(‌‌كتاب الإجارات، باب الأجر متى يستحق، ج:3،ص:231، ط:دار احياء التراث العربي - بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں