بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ریال کا سکہ کاغذی دو ریال کے بدلے بیچنا


سوال

ایک ریال کا  سکہ کاغذی دو ریال کے بدلے بیچنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

کرنسی کی خرید و فروخت کے معاملے میں دیکھا جائے گا کہ جن دو کرنسیوں کا آپس میں تبادلہ کیا جارہا ہے وہ دونوں ایک ہی جنس کی کرنسی ہے ( مثلاً پاکستانی روپے کے بدلے میں پاکستانی روپے) تو اس صورت میں کمی بیشی کرنا جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر دونوں جانب کی کرنسی آپس میں ایک ہی جنس کی نہ ہو (مثلاً روپے کے بدلے ڈالر یا ریال) تو اس صورت میں کرنسی کی خرید و فروخت میں کمی بیشی کرنا تو جائز ہوگا، البتہ ادھار کر کے بیچنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ مجلسِ عقد میں دونوں طرف سے کرنسی پر قبضہ کرنا لازم ہوگا۔

اور اگر معاملہ خرید و فروخت کا نہ ہو، بلکہ قرض لیا ہو تو ادائیگی کے وقت اسی جنس کی اتنی ہی کرنسی لوٹانا اصل ہے، اگر ادائیگی کے وقت باہمی رضامندی سے دوسری کرنسی دینی ہو تو اس وقت قرض میں دی گئی کرنسی کے مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے ادائیگی کی اجازت ہوگی، مارکیٹ ریٹ سے ہٹ کر اپنی طرف سے کمی یا زیادتی کے ساتھ قرض کی ادائیگی درست نہیں ہوگی۔

نیز نوٹ یا سکے جو ایک ہی ملک کے ہوتے ہیں اور ایک ہی قسم کی مالیت رکھتے ہیں، ان کا آپس میں تبادلہ مساوی طور پر ہاتھ  در ہاتھ جائزہے۔ کمی زیادتی کے ساتھ  تبادلہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائزہے، لہٰذا  ایک ریال کا سکہ  کاغذی دو ریال کے بدلے  فروخت کرنا اور انہیں خریدنا ناجائز اورسود ہے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 

"(هو) لغةً: الزيادة.وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)".

(کتاب البیوع، باب الصرف، 5/ 257، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100961

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں